بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عصر کی نماز کے بعد قضا نماز پڑھنے اور قضا نماز باجماعت پڑھنے کا حکم


سوال

کیاعصر کی فرض نماز کے بعد   گذشتہ عصرکی قضا  نماز پڑھ سکتے ہیں؟،نیز قضاء نماز جماعت سے پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ قضاء نمازوں کی ادائیگی کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں،تین مکروہ اوقات(طلوع آفتاب،زوال آفتاب،غروب آفتاب) کے علاوہ کسی بھی وقت  قضاء نمازیں پڑھی جاسکتی ہیں،البتہ عصر کی وقتی نمازکے بعد سورج زرد ہوجانے سے پہلے پہلے سابقہ قضاء نمازیں چاہے عصر کی ہو یا کوئی دوسری نماز کی قضاء ہو  ادا کی جا سکتی ہیں، البتہ سورج کے زردی مائل ہوجانے کے بعد(تقریباً غروب سے بیس منٹ پہلے) سے لے کر غروب آفتاب تک قضاء نماز ادا نہیں کی جاسکتی۔

 اگر ایک سے زائد افراد کی ایک ہی وقت کی نماز قضاء ہوجائے اور وہ ایک جگہ پر قضاء نماز پڑھ رہے ہوں تو انہیں قضا نماز  باجماعت ہی پڑھنی چاہیے،کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قضاء نماز باجماعت ادا فرمائی تھی،اور جہری نماز ہوتو قرات جہراًاور سری نماز ہوتو قرات سراً کی جائے،اورقضاء کی جماعت میں شرط یہ ہے کہ سب نمازیوں کی قضاءنماز ایک ہو، نیز یہ کہ  شدید عذر اور مجبوری کے بغیرمحض غفلت کی وجہ سے نماز قضاء کرنا  کبیرہ گناہ ہے،اور گناہ کا اظہار بھی شریعت میں پسندیدہ نہیں ہے، لہذا قضاءنماز کی جماعت علی الاعلان نہ ہو، بلکہ لوگوں سے چھپ کر اداکروائی جائے ، لہذا مسجد میں عصر کی فرض نماز ادا کرنے کے بعد  اسی طرح فجر کی فرض نماز ادا کرنے کے بعد مسجد میں سب کے سامنے قضاپڑھنا درست نہیں ،بلکہ گھر یا مسجد کے اس حصہ میں قضاپڑھے جہاں کسی اور کی نظر نہ پڑے۔

عمدۃ القاری میں ہے:

"عن عبد الله ابن أبي قتادة عن أبيه قال سرنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ليلة فقال بعض القوم لو عرست بنا يا رسول الله قال أخاف أن تناموا عن الصلاة قال بلال أنا أوقظكم فاضطجعوا وأسند بلال ظهره إلى راحلته فغلبته عيناه فنام فاستيقظ النبي صلى الله عليه وسلم وقد طلع حاجب الشمس فقال يا بلال أين ما قلت قال ما ألقيت علي نومة مثلها قط قال إن الله قبض أرواحكم حين شاء وردها عليكم حين شاء يا بلال قم فأذن بالناس بالصلاة فتوضأ فلما ارتفعت الشمس وابياضت قام فصلى."

فقال الشارح:ذكر ما يستنبط منه: وهو على وجوه:...التاسع: فيه دليل على جواز قضاء الصلاة الفائتة بالجماعة."

(كتاب مواقييت الصلاة، ج:5، ص:89، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وجميع أوقات العمر وقت للقضاء إلا الثلاثة المنهية كما مر.

وفي الرد:(قوله إلا الثلاثة المنهية) وهي الطلوع والاستواء والغروب."

(كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ج:2، ص:66، ط:سعيد)

وفيه اىضا:

"(‌بعد ‌صلاة ‌فجر و) صلاة (عصر) ولو المجموعة بعرفة (لا) يكره (قضاء فائتة و) لو وترا أو (سجدة تلاوة وصلاة جنازة.

وفي الرد:(قوله: ‌بعد ‌صلاة ‌فجر وعصر) متعلق بقوله وكره أي وكره نفل إلخ ‌بعد ‌صلاة ‌فجر وعصر: أي إلى ما قبيل الطلوع والتغير بقرينة قوله السابق لا ينعقد الفرض إلخ، ولذا قال الزيلعي هنا: المراد بما بعد العصر قبل تغير الشمس، وأما بعده فلا يجوز فيه القضاء أيضا وإن كان قبل أن يصلي العصر."

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:375، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومتى قضى الفوائت إن قضاها بجماعة فإن كانت صلاة يجهر فيها يجهر فيها الإمام بالقراءة وإن قضاها وحده يتخير بين الجهر والمخافتة والجهر أفضل كما في الوقت ويخافت فيما يخافت فيه حتما وكذا الإمام، كذا في الظهيرية."

(كتاب الصلاة، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت، ج:1، ص:121، ط:دارالفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407100176

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں