بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عصر کی نماز میں پانچ رکعات ادا کرلیں


سوال

میں عصر میں چوتھی  رکعت میں قعدۂ اخیرہ کے بعد پانچویں رکعت کے لیے اٹھ گیا، اب اٹھنے کے بعد دو رکعت پڑھنا تھا تا کہ وہ نفل ہو جائیں تو  پانچویں رکعت کے بعد یاد آیا کہ عصر کے بعد نوافل نہیں۔ اس صورت میں  پانچویں رکعت کے بعد  قعدہ اور سجدہ سہو  کیا،  اس صورت میں نماز کا کیا حکم ہے؟ اور  پانچویں رکعت جو کہ چاررکعت کے قعدہ کے بعد پڑھی اس کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ  میں جب  سائل  چوتھی رکعت میں بیٹھنے کے بعد پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوا تو پانچویں رکعت کے سجدے سے  پہلے  پہلے یاد آیا تھا تو  سائل  کو اسی وقت قعدہ میں بیٹھ کر سجدۂ سہو کرکے  نماز مکمل  کرنا چاہیے تھا،  لیکن اگر پانچویں رکعت کے سجدے کے بعد یاد آیا تو پانچویں  رکعت کے بعد  مزید ایک رکعت ادا کرلینی  چاہیے تھی، تاکہ چار  رکعت عصر اور دو رکعت نفل بن جاتیں، تاہم   چھٹی رکعت نہ ملانے کی صورت میں فرض نماز ادا ہوگئی اور پانچویں رکعت لغو شمار ہوگی، نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔

عصر کے بعد اپنے اختیار سے تحریمہ باندھ کر نفل شروع کرنا ممنوع ہے، مذکورہ صورت غیر اختیاری تھی، یعنی بھول کر پانچویں رکعت شروع کردی جو کہ نفل کی پہلی رکعت ہے، اس لیے یہاں یہی حکم تھا کہ چھٹی رکعت ملا لی جاتی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل صلى الظهر خمسًا وقعد في الرابعة قدر التشهد إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة عاد إلى القعدة وسلم، كذا في المحيط. و يسجد للسهو، كذا في السراج الوهاج. وإن تذكر بعدما قيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة لايعود إلى القعدة و لايسلم بل يضيف إليها ركعة أخرى حتى يصير شفعا ويتشهد ويسلم، هكذا في المحيط.

ويسجد للسهو استحسانا، كذا في الهداية وهو المختار، كذا في الكفاية ثم يتشهد ويسلم، كذا في المحيط والركعتان نافلة ولا تنوبان عن سنة الظهر على الصحيح، كذا في الجوهرة النيرة قالوا في العصر لا يضم إليها سادسة وقيل: يضم وهو الأصح، كذا في التبيين.

وعليه الاعتماد؛ لأن التطوع إنما يكره بعد العصر إذا كان عن اختيار وأما إذا لم يكن عن اختيار فلايكره، كذا في فتاوى قاضي خان ... ويضم إليها ركعة سادسة ولو لم يضم فلا شيء عليه، كذا في الهداية."

( كتاب الصلاة، الباب الثاني عشر في سجود السهو، فصل سهو الإمام يوجب عليه وعلى من خلفه السجود، ١ / ١٢٩، ط: دار الفكر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202375

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں