بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

”السلام علیکم“ کے بجائے ”اسلام علیکم“ یا ”اسلام وعلیکم“ یا ”سلام وعلیکم“ وغیرہ کہنا


سوال

آج کل لوگ "السلام علیکم" کی بجائے "اسلام علیکم" یا "اسلام وعلیکم" اور "سلام وعلیکم" لکھ کر میسج کرتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا "السلام علیکم" کی بجائے "اسلام علیکم" یا "اسلام وعلیکم" یا "سلام وعلیکم"  لکھ کر بھیجنا کیسا ہے؟  میرے محدود علم کے مطابق السلام علیکم یا سلام علیکم کے علاوہ اسلام علیکم یا سلام وعلیکﷺم یا السلام وعلیکم لکھنا  درست نہیں اور اس سے سلام کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔

جواب

سلام کرنا سنت ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان الفاظ سے سلام کیا جائے: "السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ"، اور صرف ”السلام علیکم “ کہنا بھی کافی ہے۔

لیکن ”السلام علیکم“ کے بجائے ”اسلام علیکم“ یا ”اسلام وعلیکم“ یا ”سلام وعلیکم“ سے سلام کی سنت ادا نہیں ہوگی، بلکہ اس کے بسا اقات معنی بھی بدل جاتے ہیں، اور اگر سین کے بعد والا لام حذف کردیا جائے یعنی "السام علیکم" کہا جائے تو معنٰی غلط ہوجاتے ہیں، اور سلام کا معنی مفقود ہوکر ہلاکت ہوجاتاہے، اس لیے ان الفاظ سے سلام کرنے سے اجتناب ضروری ہے۔

ایک حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ:

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن یہود کی ایک جماعت نے نبی کریم ﷺ  کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی چنانچہ ان کو اجازت دے دی گئی  اور جب وہ آپ کے پاس آئے تو  انہوں نے  ”السلام علیکم“ کہنے کے بجائے یہ کہا کہ ”السام علیکم“ (تمہیں موت آئے)، تو  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کہا کہ:  بلکہ تمہیں موت آئے اور تم پر لعنت ہو،  آں حضرت ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! اللہ تعالیٰ محبت و نرمی کرنے والا ہے اور ہر کام میں محبت و نرمی کو پسند کرتا ہے،  میں نے عرض کیا:  کیا آپ ﷺ نے سنا نہیں، انہوں نے سلام کے بجائے کیا لفظ کہا ہے؟ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:بے شک میں نے سنا ہے اور میں نے ان کے جواب میں کہا ہے کہ:  "وعلیکم" (یعنی تم پر) اور ایک روایت میں یہ لفظ "علیکم" ہے یعنی واؤ کا ذکر نہیں ہے۔ (بخاری ومسلم)

اور بخاری کی ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  نے فرمایا: ایک دن کچھ یہودی نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے "السلام علیکم" کہنے کے بجائے یہ کہا کہ "السام علیکم" آں حضرت ﷺ نے ان کے جواب میں فرمایا: "وعلیکم"،  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ یہودیوں کی یہ بدتمیزی مجھ سے برداشت نہ ہوئی اور میں نے ان کے جواب میں کہا کہ تمہیں موت آئے اور تم پر اللہ کی لعنت ہو اور تم پر اللہ کا غضب ٹوٹے۔
آں حضرت ﷺ نے جب میری زبان سے ایسے الفاظ سنے تو فرمایا کہ عائشہ   رک جاؤ! تمہیں نرمی اختیار کرنی چاہیے، نیز سخت گوئی اور لچر باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا   نے کہا کہ کیا آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا لفظ کہا ہے؟ آں حضرت ﷺ نے فرمایا اور کیا تم نے نہیں سنا کہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے، میں نے اس پر کیا جواب دیا ہے،  تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے حق میں میری دعا یا بد دعا تو قبول ہوتی ہے، لیکن میرے حق میں ان کی دعا یا بد دعا قبول نہیں ہوتی۔ اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عائشہ  تم لچر باتیں کرنے والی مت بنو؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ لچر باتوں کو اور بہ تکلف لچر باتیں بنانے کو پسند نہیں کرتا۔

مشكاة المصابيح (3/ 1316):

"وَعَن عائشةَ قَالَتْ: اسْتَأْذَنَ رَهْطٌ مِنَ الْيَهُودِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا السَّامُ عَلَيْكُمْ. فَقُلْتُ: بَلْ عَلَيْكُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ. فَقَالَ: «يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِّهِ» قُلْتُ: أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا؟ قَالَ: «قَدْ قُلْتُ وَعَلَيْكُمْ» . وَفِي رِوَايَةٍ: «عَلَيْكُمْ» وَلم يذكر الْوَاو.
وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبُخَارِيِّ. قَالَتْ: إِنَّ الْيَهُودَ أَتَوُا النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم [ص:1317] فَقَالُوا: السَّام عَلَيْكَ. قَالَ: «وَعَلَيْكُمْ» فَقَالَتْ عَائِشَةُ: السَّامُ عَلَيْكُمْ وَلَعَنَكُمُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْكُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَهْلًا يَا عَائِشَةُ عليكِ بالرِّفق وإِياك والعنفَ والفُحْشَ» . قَالَت: أَو لم تسمع مَا قَالُوا؟ قَالَ: «أَو لم تَسْمَعِي مَا قُلْتُ رَدَدْتُ عَلَيْهِمْ فَيُسْتَجَابُ لِي فِيهِمْ وَلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ فِيَّ»
وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ. قَالَ: «لَا تَكُونِي فَاحِشَةً فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحبُّ الفُحْشَ والتفحُّش»."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 415):

"وأنه لايجب رد سلام عليكم بجزم الميم

"(قوله: بجزم الميم) الأولى بسكون الميم قال ط: وكأن عدم الوجوب لمخالفته السنة التي جاءت بالتركيب العربي ومثله فيما يظهر الجمع بين أل والتنوين اهـ. وظاهر تقييده بجزم الميم أنه لو نون المجرد من أل كما هو تحية الملائكة لأهل الجنة يجب الرد فيكون له صيغتان، وهو ظاهر ما قدمناه سابقا عن التتارخانية، ثم رأيت في الظهيرية ولفظ السلام في المواضع كلها: السلام عليكم أو سلام عليكم بالتنوين، وبدون هذين كما يقول الجهال، لا يكون سلاما قال الشرنبلالي في رسالته في المصافحة: ولا يبتدئ بقوله عليك السلام، ولا بعليكم السلام لما في سنن أبي داود والترمذي وغيرهما بالأسانيد الصحيحة عن جابر بن سليم - رضي الله تعالى عنه - قال: «أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: عليك السلام يا رسول الله قال لا تقل عليك السلام فإن عليك السلام تحية الموتى» قال الترمذي حديث حسن صحيح، ويؤخذ منه أنه لا يجب الرد على المبتدئ بهذه الصيغة، فإنه ما ذكر فيه أنه عليه الصلاة والسلام رد السلام عليه بل نهاه، وهو أحد احتمالات ثلاثة ذكرها النووي، فيترجح كونه ليس سلاما، وإلا لرد عليه ثم علمه كما رد على المسيء صلاته ثم علمه، ولو زاد واوا فابتدأ بقوله: وعليكم السلام لا يستحق جوابا لأن هذه الصيغة لا تصلح للابتداء فلم يكن سلاما قاله المتولي من أئمة الشافعية اهـ.

قلت: وفي التتارخانية عن الفقيه أبي جعفر: أن بعض أصحاب أبي يوسف كان إذا مر بالسوق يقول: سلام الله عليكم فقيل له في ذلك فقال: التسليم تحية وإجابتها فرض، فإذا لم يجيبوني وجب الأمر بالمعروف، فأما سلام الله عليكم فدعاء فلا يلزمهم، ولا يلزمني شيء فأختاره لهذا اهـ.

قلت: فهذا مع ما مر يفيد اختصاص وجوب الرد بما إذا ابتدأ بلفظ السلام عليكم أو سلام عليكم وقدمنا أن للمجيب أن يقول في الصورتين سلام عليكم، أو السلام عليكم، ومفاده أن ما صلح للابتداء صلح للجواب ولكن علمت ما هو الأفضل فيهما."

(کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، ج:۶،ص:۴۱۶،۴۱۵،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201692

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں