بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

اصل سرمایہ پر متعین منافع رکھ کر گاڑی بیچنے کا حکم


سوال

آج کل  لوگوں میں کاروبا ر کا طریقہ  یہ بھی ہےکہ مثلاً          مجھے  ایک گاڑی کی  ضرورت ہے، لیکن میرے  پاس پیسے نہیں ہیں،جس کی وجہ سے میں نے ایک شخص سے   جو گاڑی نقد میں خرید کر ادھار پر فروخت کرتا ہے کہا کہ میرے لئے گاڑی خرید لو، پھر مجھے قسطوں میں فروخت کردو،اس شخص نے کہا ٹھیک ہے،آپ پسند کر لیں، میں نے ایک گاڑی پسند  کی ، اس کے بعد اس شخص نے اس  گاڑی کے مالک سے  15 لاکھ روپے میں  گاڑی خرید  لی، اب جب مذکورہ شخص  اس گاڑی کو میرے ہاتھ  فروخت کرتا ہے تو مارکیٹ کا طریقہ کار یہ ہےکہ لاکھ پر پچاس یا ساٹھ ہزار کا نفع لیتے ہیں، تو اس شخص نے وہ گاڑی  لاکھ پر    پچاس ہزارمنافع لگا کر15 لاکھ کے  حساب سے ساڑھے بائیس لاکھ روپے میں        مجھے  بیچ دی ، اب  پوچھنا یہ ہےکہ  پہلے سے لاکھ پر    پچاس ہزار معین منافع لگا کر سودا کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

 

جواب

 کوئی چیز خرید کر  آگے نفع  پر بیچنا شرعا ً درست ہے، چاہے عقد (معاملہ) قسطوں پر کیا ہو یا  نقد پر، لہذا    صورت ِ مسئولہ میں  سائل کا زید کو گاڑی خریدنے کا  کہنا ، اور  پھر زید  کا اس  گاڑی کو  ذاتی طور پر  پندرہ لاکھ  روپے میں خرید کر ، قبضہ کرکےمتعینہ نفع رکھ کر آگے ساڑھے بائیس لاکھ  روپے میں فروخت کرنا شرعا جائز ہے۔

فتح القدیر  فی شرح الھدایہ میں ہے :

(قال: ومن اشترى غلاماً بألف درهم نسيئة، فباعه بربح مائة ولم يبين، فعلم المشتري: فإن شاء رده، وإن شاء قبل؛ لأن للأجل شبها بالمبيع، ألا يرى أنه يزاد في الثمن لأجل الأجل، والشبهة في هذا ملحقة بالحقيقة......)."

(قوله ومن اشترى غلاما) أو غيره (بألف نسيئة فباعه بربح مائة) ولم يبين أنه اشتراه نسيئة بالألف (فعلم المشتري) بذلك (ف) له الخيار (إن شاء رده وإن شاء قبل) بالألف والمائة حالة، وإنما يثبت له الخيار (لأن للأجل شبها بالمبيع)؛ ألا يرى أنه يزاد في الثمن لأجله، (والشبهة ملحقة بالحقيقة فكان كأنه اشترى شيئين) بالألف (وباع أحدهما) بها على وجه المرابحة، وهذا خيانة فيما إذا كان مبيعا حقيقة، فإذا كان أحد الشيئين يشبه المبيع يكون هذا شبهة الخيانة وشبهة الخيانة ملحقة بالحقيقة في المرابحة.

(کتاب البیوع، باب المرابحة والتولیة، ج : 6، ص : 468/467، ط : دار الکتب العلمیة)

 فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولو اشترى ثوبا بعشرة فأعطى بها دينارا أو ثوبا فرأس المال العشرة حتى لو باعه مرابحة لزم المشتري الثاني عشر"۔

‌‌( کتاب البیوع، الباب الرابع عشر في المرابحة والتولية والوضيعة، ج : 3، ص : 160، ط : دار الفکر بیروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144609100569

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں