بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اصل رقم سے زائد کی رسید بنوانے کا حکم


سوال

میں الیکٹرک کا سامان فروخت کرتا ہوں ,میرے پاس کچھ کاریگر طبقہ بھی سامان لینے آتا ہے ،ان میں سے کچھ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں بل (رسید) کچھ زیادہ پیسے  کی بنادو ، تا کہ وہ آگے سے کچھ پیسے زیادا لے سکیں ،ایسے میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ وہ کچھ وجوہات بھی دیتے ہیں کہ ہمیں آگے سے اجرت پوری نہیں ملتی۔

جواب

صورت مسئولہ میں دوکان دار کا اصل بل سے زیادہ کا بل بناکر  دینا غلط بیانی  دھوکہ دہی کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے ،نیز گناہ کے کام میں معاونت بھی ہے ، اللہ تعالیٰ نے ہمیں  نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرنے کا حکم فرمایا ہے،  اگر دوکان دار اصل مقدار سے زیادہ پیسوں کا بل بناکر ملازم کو دیتا ہے تو ایسا کرنا شرعا نا جائز و حرام ہونے کے ساتھ ساتھ اصل مالکان پر ظلم وزیادتی کی بنا پر دوکان دار  گناہ گار بھی ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے یہاں جواب دہ بھی ہوگا، لہٰذا اسے اس طرح کے کاموں سے بچنا  لازم اور ضروری ہے ، کاریگر کو آگے اجرت پوری ملتی ہے یا نہیں ، یہ اس کا مسئلہ ہے ، اگر اجرت پوری نہیں ملتی ، تو اس جگہ کام نہ کرے ،لیکن اس بنیاد پر سائل کے لیے اسے زیادہ پیسوں کا بل بنا کر دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔

"سنن أبي داود" میں ہے:

"عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إياكم ‌والكذب، فإن الكذب يهدي إلى الفجور، وإن الفجور يهدي إلى النار، وإن الرجل ليكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا، وعليكم بالصدق، فإن الصدق يهدي إلى البر، وإن البر يهدي إلى الجنة، وإن الرجل ليصدق ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقا."

(‌‌كتاب الأدب، باب في التشديد في الكذب، رقم الحديث:4989، ج:4، ص:297، ط:المكتبة العصرية بيروت)

"مسند أحمد" میں ہے:

"عن أبي أمامة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌يطبع ‌المؤمن ‌على ‌الخلال ‌كلها ‌إلا ‌الخيانة ‌والكذب."

 (‌‌‌‌تتمة مسند الأنصار، حديث أبي أمامة الباهلي، رقم الحديث:22170، ج:36، ص:504، ط:مؤسسة الرسالة)

"سنن الكبرى للبيهقي"  میں ہے:

"ويروى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال:  ‌كل ‌أحد ‌أحق بماله من والده وولده والناس أجمعين."

(‌‌‌‌كتاب النفقات، باب نفقة الأبوين، ج:7، ص:790، ط:العلمية)

"مشكاة المصابيح" میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تظلموا ‌ألا ‌لا ‌يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(‌‌‌‌كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج:2، ص:889، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية."

"(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين."

(کتاب البیوع، ص:4، ص:560، ط:سعید)

وفيه أيضا:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس."

(کتاب الإجارۃ، ج:6، ص:63، ط:سعيد)

"درر الحکام في شرح مجلة الأحکام" میں ہے:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة." 

(الکتاب الحادي عشر: الوکالة، الباب الثالث، الفصل الأول، المادة:1467، ج:3، ص:573، ط:دارالجیل)

"مجلة الأحكام العدلية" میں ہے:

"لايجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."

(المقالة الثانیة، المادة:97، ج:1، ص:51، ط:نور محمد كارخانه تجارتِ كتب آرام باغ كراتشي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100985

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں