بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اصل نام چھوڑ کے فرعی نام سے نکاح پڑھانا اور اسی فرعی نام سے طلاق دینے کا حکم


سوال

اگر کسی لڑکی کا نکاح اپنے نام کے علاوہ دوسرے عرفی نام سے کرایا جائے، حالانکہ اس کا اصل نام کوئی اور ہے جس سے اـُسے گھر میں بھی بُلایا جاتا ہو اور یہی اصل نام تمام سرٹیفیکیٹ وغیرہ میں بھی لکھا ہوا ہو، تو اگر اصل نام کے علاوہ دوسرے عرفی نام سے  اسی لڑکی کو طلاق دی جائے تو کیا اس سے  طلاق واقع ہوجائے گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر لڑکی کے عرفی نام سے بھی نکاح کرایا جائے تو نکاح ہوجائے گا، اسی طرح عرفی نام سے طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجائے گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قال: امرأته طالق ولم يسم وله امرأة) معروفة طلقت امرأته."

 (كتاب النكاح، باب طلاق غير المدخول بها، ج:3، ص:292، ط:سعيد)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"میں نے اپنی منکوحہ بیوی وحید النساء کوغصہ کی حالت میں یہ جملہ کہہ کر طلاق دی کہ ’ عبدل کی لڑکی’ میرا‘ نام کو میں نے طلاق دی‘ تین بار کہا۔ دس منٹ کے بعد پھر اسی غصہ میں تین بار اسی جملہ کو کہہ دیا،  شادی کے وقت قاضی صاحب نے وحید النساء ولد عبدل کہہ کر نکاح پڑھایا تھا مگر ہمارے گھر میں "میرا" کے نام سے مشہور ہے ، میکہ میں "میرا "کے نام سے مشہور ہے ۔تو طلاق میں نے ” میرا‘ کے نام سے دی ۔اس صورت میں طلاق واقع ہوئی یانہیں؟

الجواب حامدا ومصلياً:جب وہ "میرا" نام سے آپ کے یہاں مشہور ہے اور اسی نام سے آپ نے تین طلاق دی ہے، توبلاشبہ طلاقِ مغلظہ واقع ہوگئی۔"

(کتاب الطلاق، باب وقوع الطلاق وعدم وقوعہ، جس نام سے بیوی مشہور ہو ، اس نام سے طلاق دینا، ج:12، ص:197، ط:ادارہ الفاروق کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100118

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں