میں نے کوئي چیز کسی چور سے خریدی تھی، چور سے یہ بھی پوچھا تھا که کہاں سے چرا کے لاۓ هو؟ چور نے بتایا کہ میں فلاں جگہ سے چرا کے لایا ہوں، یہ سوچ کر کے جس کسی کی ہوگی، میں اس تک پہنچا دوں گا، کافی قیمتی چیز ہے، لیکن 2سال کا عرصہ گزر گیا، ابھی تک مالک کا پتا نہیں چل سکا، کیا میں اس چیز کو استعمال کر سکتا ہوں، اگر شریعت کا جواب نہ میں ہے تو اب میرے لیے اس چیز کا کیا شرعی حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر آپ مستحقِ زکاۃ ہیں تو آپ کے لیے مذکورہ چیز استعمال کرنے کی گنجائش ہے اور اگر آپ مستحقِ زکاۃ نہیں ہیں تو آپ اصل مالک کی طرف سے کسی مستحقِ زکاۃ کو یہ چیز صدقہ کردیں۔
"و للملتقط أَن ينْتَفع باللقطة بعد التَّعْرِيف لَو فَقِيراً، وَإِن غَنِياً تصدق بهَا وَلَو على أَبَوَيْهِ أَو وَلَده أَو زَوجته لَو فُقَرَاء، وَإِن كَانَت حقيرةً كالنوى وقشور الرُّمَّان والسنبل بعد الْحَصاد ينْتَفع بهَا بِدُونِ تَعْرِيف، وللمالك أَخذهَا، وَ لَايجب دفع اللّقطَة إِلَى مدعيها إلاّ بِبَيِّنَة، وَيحل إِن بَين علامتها من غير جبر."
(ملتقي الأبحر : ١/ ٥٢٩-٥٣١)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144111201509
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن