بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اصل کی نقل بناکر مارکیٹ میں بیچنا


سوال

ہم شیمپو کی نقل ہول سیل میں بیچتے ہیں، مطلب اصلی شیمپو کی نقل ہو بہ ہو، ظاہری شکل میں بنا کر بیچتے ہیں، مگر اندر مواد ہرگز اصلی نہیں، اور ہمارے تمام گاہکوں کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ یہ اصل شیمپو کی نقل ہے، تو کیا یہ کام جائز اور حلال ہے؟

جواب

کسی کمپنی کا نام استعمال کرکے اپنی مصنوعات فروخت کرنا جب کہ خریداروں کو اس بات کا بتایاگیا ہو اگرچہ یہ خرید و فروخت جائز ہے، تاہم اس میں خریداروں کے لیے دھوکے کا شبہ موجو دہے، اس لیے ایسے کام سے اجتناب کرنا بہتر ہے۔ نیز کسی کمپنی کے نام کے استعمال کے بجائے بغیر نام یا کوئی دوسرا ایسا نام رکھ لیا جائے جس میں گاہکوں کے لیے اشتباہ کا اندیشہ نہ ہو۔

امدادالفتاویٰ میں ہے:

"نقلی چیزوں کو نقلی ظاہر کر کے فروخت کرنا:

سوال (۱۷۷۷) : قدیم ۳/ ۱۳۳- گھی، عنبر، مشک وغیرہ مصنوعی تیار کیا جاوے اور یہ کہہ کر یہ اصلی نہیں مصنوعی ہے، کم قیمت پر اس کو فروخت کیا جاوے، کیا یہ بھی دھوکا و خداع و ناجائز ہے یانہیں ؟
الجواب:یہ دھوکا  نہیں ہے جائز ہے،  البتہ ورع کے خلاف اس لیے ہے کہ مشتری سے خداع کا احتمال ہے، اور اس کی بیع ایک درجہ میں اس کا سبب ہے۔ (حوادث اول وثانی ص ۲۱)"۔

(امدادالفتاویٰ،3/133،کتاب البیوع )

شرح النووي على مسلم ـ (5 / 340):

"2825 - قوله صلى الله عليه وسلم : ( البيعان بالخيار ما لم يتفرقا فإن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما )
أي بين كل واحد لصاحبه ما يحتاج إلى بيانه من عيب ونحوه في السلعة والثمن وصدق في ذلك ، وفي الإخبار بالثمن وما يتعلق بالعوضين ، ومعنى ( محقت بركة بيعهما ) أي ذهبت بركته وهي زيادته ونماؤه."

 کفایت المفتی میں ہے :

"خود بنائے ہوئے زعفران کے ساتھ اصل زعفران ملاکر اعلیٰ قسم کا کہہ کر بیچنا !

(سوال)  زید  زعفران بناتا ہے رنگ مزہ اور طبی فوائد کے لحاظ سے اس  میں بھی  وہی خاصیت پیدا ہوجاتی ہے زبان پر گھلنے  اور رنگ دینے کی وہی کیفیت پید اہوتی ہے جو اصل زعفران کی کیفیت ہے غرضکہ اصلی زعفران سے بھی بہتر ہوجاتا ہے، مگر فروختگی کے وقت  زید اس کی تصریح نہیں کرتا کہ یہ بنا ہوا ہے، بلکہ یہ کہتا ہے کہ یہ اعلیٰ  قسم کا بہترین زعفران ہے، دکاندار اس کو اعلیٰ ہی قسم کے دام پر خریدتے ہیں، استفسار طلب یہ  امر ہے کہ آیا ایسی حالت میں کہ زید  اصلی یا نقلی ہونے کی تصریح نہ کرے اور شے معلوم اصلی سے کسی حالت میں  کم بھی نہ ہو، بلکہ صنعت کا ایک بہترین نمونہ ہے اور اصلی سے بھی بعض لحاظ سے بہتر ہے تو کیا اس طریقے پر اس کی بیع و شرا جائز ہے؟  اور  اس کا بنانے والا گناہ گار ہے یا نہیں؟
    دوسری صورت یہ ہے کہ اگر اس کو نقلی کرکے ہی بیچا جائے تو جائز ہے یا نہیں؟ تیسری صورت یہ ہے کہ اگر مذکورہ کے ساتھ اصلی مخلوط ہو تو جائز ہے یا نہیں؟  اور ایسی صورت میں کیا اصلی کا زائد ہونا بھی ضروری ہوگا تاکہ یہ  صورت اس صور ت کی  طرح ہوجائے جیسا  کہ فضہ کے ساتھ غیر فضہ  مخلوط ہو اور فضہ غالب ہو تو فقہاء اس کو فضہ ہی کے حکم میں شمار کرتے ہیں ۔ المستفتی نمبر ۹۰۵  جامعہ حسینیہ ( راندیر) ۸ صفر ۱۳۵۵؁ھ  ۳۰ اپریل ۱۹۳۶؁ء
(جواب ۱۶)  زعفران بنانا فی حد ذاتہ جائز ہے اور اس کو فروخت کرنا بھی جائز ہے، لیکن یہ تصریح کردینی لازم ہے کہ یہ زعفران مصنوعی یا نقلی ہے، بغیر تصریح کے فروخت کرنا گناہ ہے اور دھوکا ہے؛ کیوں کہ اس صورت میں کہ مصنوعی زعفران میں اصلی زعفران بالکل نہ ہو  زعفران کے نام سے فروخت کرنا کھلا ہوا دھوکا ہے اور جب کہ اصلی زعفران بھی ملا ہوا ہو تو اس صورت میں بھی غیر خالص کی تصریح کرنی ضروری ہے، الا اس صورت میں کہ غیر زعفران کی آمیزش اس  درجہ کم ہو کہ عرفاً اس کو غیر معتبر  قرار دیا جاتا ہو اور اتنی آمیزش سے اصلی زعفران غالب  حالات میں خالی نہ ہوتا ہو۔
   "غالب الفضة فضة" کا   قاعدہ صحیح ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر مشتری خالص چاندی مانگے تو ایسی چاندی  جس میں فی تولہ آٹھ ماشے چاندی اور چار ماشے کھوٹ ہو اسے دے دے اور یہ سمجھے کہ میں نے کوئی دھوکا نہیں دیا  اور غش  نہیں کیا، بیع میں بائع کا فرض  یہ ہے کہ مبیع کی اصلی حالت اور معائب سے مشتری کو مطلع کردے جب کہ عارضی اوصاف جو مبیع میں عیب پیدا کرتے ہیں  ظاہر کرنا ضروری ہے تو ایسی صورت کہ تولہ بھر زعفران میں جو مبیع  ہے چار ماشے زعفران ہی ذاتاً معدوم ہے، اس کی جگہ کوئی دوسری چیز ملی ہوئی ہے بغیر بیان کیسے جائز ہوسکتی ہے؟ اور "من غشّ فلیس منّا" کے  دائرے سے کیسے یہ صورت   مستثنیٰ ہوسکتی  ہے۔

"لایحلّ کتمان العیب في مبیع أو ثمن لأنّ الغش حرام." (درمختار)

  وفي الحدیث: و إن  کذبا و کتما محقت برکة بیعهما. (بخاری) أي: کتم البائع عیب السلعة والمشتری عیب الثمن." (عیني)

  محمد  کفایت اللہ  کان اللہ لہ‘ دہلی۔"

(8/46 کتاب البیوع،  ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144109201407

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں