میری کریانہ کی دکان ہے، اس میں بہت سی چیزیں یہودی کمپنی کی ہیں، جیسے یونی لیور، کولگیٹ،ڈیٹول وغیرہ عرصہ دراز سے اصل چیزیں ہی فروخت کرتا ہوں، کسٹمر کو یقین ہے کہ یہ نقل چیزیں نہیں بیچتے، اب مارکیٹ میں ان کمپنیوں کی بہت اچھی نقل موجو ہے، جسے جعلی بھی کہا جاتا ہے، کیا اس نیت سے جعلی چیزیں فروخت کی جاسکتی ہیں کہ اس کا نقصان یہودی کمپنی کو ہی ہوگا، وہ ہم سے ہی دولت کما کر ہمیں ہی نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس میں منافع بھی زیادہ ہے۔ کیا اس کی بچت مچھ پر جائز ہے یا نہیں یا منافع کی رقم کسی حق دار کو دے دیا کروں تو ایسی صورت میں جعلی چیزیں بیچنا جائز ہوگا ؟
صورتِ مسئولہ میں اگر گاہک کو بتادیا جائے کہ یہ اصل کمپنی کی نقل ہے تو اس طرح کرنا جائز ہے، لیکن اگر گاہک کو علم نہیں اور نقل کو اصل بتاکر بیچاجائے تو اس طرح کرنا ناجائز اور دھوکا دہی ہے۔
الدر المختار میں ہے:
"لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام إلا في مسألتين.
الأولى: الأسير إذا شرى شيئا ثمة ودفع الثمن مغشوشا جاز إن كان حرا لا عبدا. الثانية: يجوز إعطاء الزيوف والناقص في الجبايات أشباه."
(کتاب البیوع ، باب خیار العیب جلد ۵ ص: ۴۷ ط: دارالفکر)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404100964
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن