بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

داماد کا ساس کو زکات دینا جائز ہے


سوال

 ایک عورت بہت غریب ہے اس کے چار بیٹے ہیں چاروں مالدار ا ہیں ان کے پاس سونا چاندی بقدر نصاب ہے لیکن فی الحال کاروبار نہیں  چل رہا ہے اس لیے ماں پر خرچ  نہیں کر  پارہے ہیں اس عورت کے ایک داماد ہے جو صاحب نصاب ہے وہ چاہتا ہے کہ اپنی ساس کی زکات کی رقم سے  مدد کرے تو کیا صورت مسئولہ میں داماد اپنی ساس کو زکات دے سکتا ہے؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر مذکورہ عورت غریب ہے نصاب کی مالک نہیں ہے اور سید/ ہاشمی خاندان سے بھی نہیں ہے تو اس کو داماد بھی زکاۃ کی رقم سے  مدد کر سکتا ہے، زکاۃ ادا ہو جائے گی۔ البتہ بیٹی اپنی زکاۃ اپنی والدہ کو نہیں دے سکتی۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم ولهذا تقبل شهادة البعض على البعض والله أعلم".

(کتاب الزکاۃ، فصل حولان الحول هل هو من شرائط أداء الزكاة، ج: 1، صفحه:  50، ط:  دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144309101309

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں