بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عصا رکھنا سننِ عادیہ میں سے ہے


سوال

ہاتھ  میں کسی قسم کی اسٹک (عصا) لےکر بازار، گلی یا مسجد میں نماز کے لیے آنا شرعًا سنت مبارک ہے؟ میں خود  پکڑنا چاہتا ہوں سنت سمجھ کر ۔

جواب

ہاتھ میں عصا رکھنا انبیاء کرام علیہم السلام کی سننِ عادیہ میں سے ہے،  حضرت موسی علیہ السلام کا عصا رکھنے کا ذکر قرآن میں ہے۔اسی طرح بعض روایات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نبی کریم ﷺ کے عصا رکھنے کا ذکر بھی ہے؛  لہذا اگر انبیاء کرام علیہم السلام کی اتباع کی نیت سے عصا ہاتھ میں رکھ کر کہیں جایا جائے تو اس عمل پر ثواب  ملے گا۔

فتاوی محمودیہ میں ہے :

"اگر ادائے سنت کی نیت ہو تو موافقِ سنّت عصا رکھنے سے ان شاء اللہ بلا قیدِ عمر بھی ثواب ملے گا۔" (ج 4 / ص 484)

كشف الخفاء ت هنداوي (1 / 369):

"التوكؤ على العصا من سنة الأنبياء عليهم الصلاة والسلام.

قال القاري: كلام صحيح، و ليس له أصل صريح، و إنما يستفاد من قوله تعالى: {وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَى}  ومن فعل نبينا صلى الله عليه وسلم في بعض الأحيان كما بينه في رسالة، قال: وأما حديث: "من بلغ الأربعين ولم يمسك العصا فقد عصى" فليس له أصل، انتهى. و قال ابن حجر الهيثمي: روى ابن عدي عن ابن عباس -رضي الله عنهما- أنه قال: التوكؤ على العصا من أخلاق الأنبياء، و كان صلى الله عليه وسلم يتوكأ عليها، ورواه الديلمي بسند عن أنس رفعه حديث: حمل العصا علامة المؤمن وسنة الأنبياء، وروي أيضًا: كانت للأنبياء كلهم مخصرة يختصرون بها تواضعًا لله عز وجل، وأخرج البزار والطبراني بسند ضعيف حديث: "إن أتخذ العصا، فقد اتخذها أبي إبراهيم."

وأخرج ابن ماجه عن أبي أمامة: خرج إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم متوكئًا على عصاه. انتهى."

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144202200661

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں