بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عصا کی لمبائی


سوال

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عصا کی لمبائی کیا تھی؟

جواب

 عصا رکھنا سنتِ انبیاءِ کرام علیہم السلام ہے ، انبیاءِ کرام نے اسے رکھا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی مختلف انداز کے عصا رہے ہیں، اور ان کی مقدار  بھی مختلف رہی ہے، ذیل میں انہیں ذکر کیا جاتا ہے: 

1- هراوة: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عصا "ہراوۃ" ہوا کرتی تھی۔

2 - عنزة: اس کی مقدار نصف رمح ذکر کی گئی ہے جو تقریباسوا میٹر کا ہوگا۔

اس کے علاوہ احادیث مبارکہ میں صراحت کے ساتھ عصا کی پیمائش کا ذکر نہیں مل سکا۔

كشف الخفاء ومزيل الإلباس عما اشتهر من الأحاديث على ألسنة الناس للعجلوني   میں ہے:

"(التوكؤ على العصا من سنة الأنبياء عليهم الصلاة والسلام) قال القاري كلام صحيح ، وليس له أصل صريح ، وإنما يستفاد من قوله تعالى (وما تلك بيمينك يا موسى)  ومن فعل نبينا صلى الله عليه وسلم في بعض الأحيان كما بينه في رسالة ، قال وأما حديث من بلغ الأربعين ولم يمسك العصا فقد عصى فليس له أصل انتهى ، وقال ابن حجر الهيثمي روى ابن عدي عن ابن عباس رضي الله عنهما أنه قال التوكؤ على العصا من أخلاق الأنبياء وكان صلى الله عليه وسلم يتوكأ عليها ، ورواه الديلمي بسند عن أنس رفعه حديث حمل العصا علامة المؤمن وسنة الأنبياء ، وروي أيضا كانت للأنبياء كلهم مخصرة يختصرون بها تواضع لله عز وجل ، وأخرج البزار والطبراني بسند ضعيف حديث : إن أتخذ العصا ، فقد اتخذها أبي إبراهيم ، وأخرج ابن ماجه عن أبي أمامة : خرج إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم متوكئا على عصاه . انتهى ، وأما حديث من خرج في سفر ومعه عصا وارى فيه الله بكل سبع ضار ، ومن بلغ أربعين سنة عدله ذلك من الكبر والعجب . فقد قال فيه ابن حجر المكي في فتاواه نقلا عن السيوطي أنه موضوع ".

(حرف المثناة الفوقية، رقم الحدیث:1025، ج:1، ص:321، ط:دارالکتب العلمیة)

لسان العرب للامام ابن منظور میں ہے:

"والعنزة عصا في قدر نصف الرمح أو أكثر شيئا فيها سنان مثل سنان الرمح وقيل في طرفها الأسفل زج كزج الرمح يتوكأ عليها الشيخ الكبير".

(المادّہ:ع، ن، ز، ج:5، ص:381، ط:دارالکتب العلمیة)

الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي    میں ہے:

"وطول الرمح:50،2م أو سبعة أذرع في رأي العين تقريباً، وقال المالكية: اثنا عشر شبراً".

(الأوقات المکروهة، ج:1، ص:676، ط: دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144307100290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں