بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ حدیث سے ثابت ہے؟


سوال

"الصّلاةُ والسّلامُ عليك يارسولَ الله"،یہ درود  حدیث کی کسی  کتاب میں موجود ہے ؟

جواب

سوال میں آپ نے جو درود ذکر کیا ہے، یہ درود شریف بعینہ اسی ترتیب پر تلاشِ بسیار کے باوجودہمیں   حدیث کی کسی کتاب میں نہیں مل سکا،البتہ  اس سے ملتے جلتے کلمات روضہ رسول صلي اللہ علیہ وسلم پر پڑھے جانے والے درود وسلام کے الفاظ(کہ جن کا متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سے ہے )کی صورت میں بعض  صحابۂ کرام سے منقول ہیں،"المصنف لعبد الرزاق"، "المصنف لابن أبي شيبة"، "السنن الكبرى للبيهقي"ودیگر کتبِ حدیث میں  صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما   سے روضۂ  اقدس پر حاضری کے وقت  سلام کے  درج ذیل الفاظ منقول ہیں:

"عن معمرٍ عن أيُّوبَ عن نافعٍ قال: كان ابنُ عمرَ إذا قدِم مِن سفرٍ أتى قبرَ النبيِّ -صلّى الله عليه وسلّم- فقال: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا بَكْرٍ، السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَبَتَاه."

ترجمہ: ’’(حضرت) نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(حضرت عبد اللہ) ابنِ عمر رضی اللہ عنہما جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوتے اور(ان الفاظ میں سلام)عرض کرتے:السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا بَكْرٍ، السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَبَتَاه(یعنی ترتیب وار پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور پھر اپنے اباجان حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ کو سلام عرض کرتے)‘‘۔

(المصنف لعبد الرزاق، كتاب الجنائز، باب السلام على قبر النبي صلى الله عليه وسلم، (3/ 576) برقم (6724)، ط/ المجلس العلمي-الهند)

اور ايك ضعيف روايت میں بھی وارد ہے کہ حضور علیہ السلام پر آپ کی حیات مبارکہ میں پہاڑوں اور درختوں نےبھی ’’ السلام عليك يا رسول‘‘ کے الفاظ سے سلام پیش فرمایا، حدیثِ مذکور اگرچہ کئی کتبِ احادیث میں  منقول ہے، اختصار کے پیش نظر ترمذی شریف سے حدیث شریف   ملاحظہ فرمائیں: 

" عن علي بن أبي طالب، قال:  كنتُ مع النبي صلى الله عليه وسلم بمكة، فخرجنا في بعض نواحيها، فما استقبله جبل ولا شجر إلا وهو يقول:السلام عليك يا رسول الله. «هذا حديث غريب» وروى غير واحد عن الوليد بن أبي ثور، وقال: عن عباد بن أبي يزيد، منهم فروة بن أبي المغراء. 

’’یعنی  حضرتِ علی بن ابی طالب رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ میں تھا، جب ہم اس کے بعض اطراف میں نکلے تو جو بھی پہاڑ اور درخت آپ کے سامنے آتے سبھی ”السلام علیک یا رسول اللہ“ کہتے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کہ: یہ حدیث غریب ہے، اورکئی لوگوں نے یہ حدیث ولید بن ابی ثور سے روایت کی ہے اور ان سب نے «عن عباد أبي يزيد» کہا ہے، اور انہیں میں سے فروہ بن ابی المغراء بھی ہیں۔‘‘

(سنن الترمذي، كتاب المناقب، باب، (5/ 593) برقم (3626)، ط/ مطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

واضح رہے کہ جو عمل (روضۂ  اقدس پر حاضری کے وقت  سلام کے الفاظ)تواتر کے ساتھ منقول ہو،ہر دور میں لاکھوں کروڑوں افراد عمل کریں،اس کو عام طور پر حدیث کی کتابوں میں نقل نہیں کیاجاتا،کیوں کہ وہ عمل ہردور میں ہرآدمی کو معلوم ہے،لہذا اس کو اہمیت کے ساتھ نقل نہیں کیا جاتا، جیساکہ تراویح کی بیس رکعت  نماز  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے تمام صحابۂ کرام نے اداکی ،پھر اس کے بعد تابعین ،پھر اس کے بعد تبعِ تابعین نے اداکی اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، اس لیے اس کے بارے میں اتنی  زیادہ حدیثیں نہیں ملیں گی، کیوں کہ اس پر سب کا عمل ہے۔

نیز صیغہ خطاب(یعنی جس کے ذریعے کسی کو مخاطب کیا جاتا ہے) کے ساتھ حضور صلی اللہ   علیہ وسلم پر درود پر ھنے سےمتعلق اتنی تفصیل جاننا ضروری ہے کہ روضہٴ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم  پر حاضری کے وقت "الصّلاةُ والسّلامُ علیك یا رسولَ الله" کے الفاظ (صیغہ خطاب )کے ساتھ درود پڑھنا جائز ہے، اس لیے کہ لفظ”یا“ کے ذریعے اسی کو مخاطب کیا جاتا ہے، جو سامنے ہو،اور روضہ اطہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف حیات ہیں، بلکہ سلام کا جواب بھی دیتے ہیں، صحیح عقیدہ ( کہ  میرا سلام فرشتے پہنچا دیں گے) کے ساتھ دور سے "الصلاة والسلام علیك یا رسول الله" پڑھنے کی اگرچہ اجازت ہے، تاہم اس طرح پڑھنے سے لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (اہلِ بدعت کی طرح) حاضر وناظر سمجھ کر اس طرح پڑھا جارہاہے، دل کا حال کسی کو معلوم نہیں، اس لیے روضۂ رسول ﷺ کے علاوہ دیگر جگہوں میں اس جملہ سے احتیاط بہتر ہے، اس لیے علمائے کرام غائبانہ اس لفظ کے ذریعہ درود و سلام پڑھنے سے منع کرتے ہیں، لہذا درود و سلام کا وہ طریقہ اپنانا چاہیے، جس میں کسی قسم کا شبہ شرک نہ ہو،  اور ایسے الفاظ میں درود و سلام بھیجنا جو  رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہوں، زیادہ بہتر ہے۔ 

مشكاة المصابيح: 

" وَعَنْ ابن مسعود قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِيَ السَّلَامَ، رَوَاهُ النَّسَائِيُّ، وَالدَّارِمِيُّ. "

( بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثاني، (1/ 291) برقم (924)، ط/المكتب الإسلامي - بيروت)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:

" (وَعَنْهُ) أَيْ: عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً) ، أَيْ: جَمَاعَةً مِنْهُمْ (" سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ ") ، أَيْ: سَيَّارِينَ بِكَثْرَةٍ فِي سَاحَةِ الْأَرْضِ مِنْ سَاحَ: ذَهَبَ، فِي الْقَامُوسِ: سَاحَ الْمَاءُ جَرَى عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، (" يُبَلِّغُونِي ") : مِنَ التَّبْلِيغِ، وَقِيلَ: مِنَ الْإِبْلَاغِ، وَرُوِيَ بِتَخْفِيفِ النُّونِ عَلَى حَذْفِ إِحْدَى النُّونَيْنِ، وَقِيلَ: بِتَشْدِيدِهَا عَلَى الْإِدْغَامِ، أَيْ: يُوَصِّلُونَ (" مِنْ أُمَّتِيَ السَّلَامَ ") : إِذَا سَلَّمُوا عَلَيَّ قَلِيلًا أَوْ كَثِيرًا، وَهَذَا مَخْصُوصٌ بِمَنْ بَعُدَ عَنْ حَضْرَةِ مَرْقَدِهِ الْمُنَوَّرِ وَمَضْجَعِهِ الْمُطَهَّرِ، وَفِيهِ إِشَارَةٌ إِلَى حَيَاتِهِ الدَّائِمَةِ وَفَرَحِهِ بِبُلُوغِ سَلَامِ أُمَّتِهِ الْكَامِلَةِ، وَإِيمَاءٌ إِلَى قَبُولِ السَّلَامِ حَيْثُ قَبِلَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَحَمَلَتْهُ إِلَيْهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَسَيَأْتِي أَنَّهُ يَرُدُّ السَّلَامَ عَلَى مَنْ سَلَّمَ عَلَيْهِ، (رَوَاهُ النَّسَائِيُّ، وَالدَّارِمِيُّ) : قَالَ مِيرَكُ: وَرَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ، وَالْحَاكِمُ، وَلَيْسَ فِي رِوَايَتِهِمَا " فِي الْأَرْضِ ". وَاعْلَمْ أَنَّ الْمَفْهُومَ مِنْ كَلَامِ الشَّيْخِ الْجَزَرِيِّ أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ مَرْوِيٌّ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، وَظَاهِرُ إِيرَادِ الْمُصَنِّفِ يَقْتَضِي أَنَّهُ مَرْوِيٌّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فَتَأَمَّلْ. قَالَ ابْنُ حَجَرٍ: وَرَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، وَالْبَيْهَقِيُّ، وَذَكَرَ ابْنُ عَسَاكِرَ طُرُقًا مُتَعَدِّدَةً وَحَسَّنَ بَعْضَهَا، ثُمَّ قَالَ: وَفِي رِوَايَةٍ بِسَنَدٍ حَسَنٍ إِلَّا أَنَّ فِيهِ مَجْهُولًا،"«حَيْثُمَا كُنْتُمْ فَصَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي»."

(بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثَّالِثُ، (2/ 743) برقم (924)، ط/ دار الفكر، بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144205200483

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں