بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

روز مرہ کے کاموں میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے استعمال کا حکم


سوال

 مصنوعی ذہانت جس کوآرٹیفیشل انٹلجینس کہتے ہیں ،روز مرہ کاموں کے استعمال کےبارے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

وضاحت :

عصر حاضر میں مصنوعی ذہانت ،کمپیوٹر سائنس کی ایسی شاخ ہے جس کو مشینوں کا ارتقائی سفر بھی کہا جا سکتا ہے، انسانی زندگی کے روزمرہ کاموں میں مشینوں سے مدد لینے کے لحاظ سے مسلم محقق اسماعیل الجزری کا نام قابل ذکر ہے، 1950ء میں" ڈاکٹر جان میکارتھی" نے مسلمان ریاضی دان محمد بن موسی الخوارزمی کا تخلیق کردہ ریاضیاتی عمل "الگورتھم" کی بنا پر ساکن و جامد مشینوں میں انسانی ذہانت کی طرح اپنے اردگرد ماحول کے ادراک کے لیے مصنوعی ذہانت کا نظریہ پیش کیاتھا، جس کی بناء پرمصنوعی ذہانت نےترتیب وار  منظم ہدایات کی بدولت عصر حاضر کی جدیدمشینوں اور آلات میں از خود سیکھنے کا متحرک عمل متعارف کروادیا ہے ،نیز زندگی میں اٹل قوانین کے ساتھ ساتھ مسلسل تغیر اور ترقی بھی لازمی ہے،ورنہ انسانی زندگی میں تغیر و انقلاب سے روگردانی کی صورت میں جمود کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔(ساکن و جامد اشیاء میں حرکت کے بارے ابن عربی کا قول ہے کہ:عالم جمادات کی چیزیں باتیں کر سکتی ہیں۔( از کتاب:فتوحات مکیہ، ابن العربی)

لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ مصنوعی ذہانت کو ڈاکٹر جان میکارتھی نے پیش کیا، لیکن ان کا بتایا ہوا اصول کہ" اشیاء میں ادراک کی خوبی و صلاحیت موجود ہوتی ہے"پہلے سے ہی اسلامی تعلیمات میں واضح انداز میں مل جاتاہے۔

روزمرہ کاموں میں مصنوعی ذہانت کا طریقہ کار:

مصنوعی ذہانت کے طریقہ کار کا مقصد روز مرہ کاموں کو سر انجام دینے والی درکار انسانی مہارتوں کو مشینی انداز میں دکھا کر کام کو سر انجام دینا ہوتا ہے، روزمرہ کاموں میں مصنوعی ذہانت کی مثالیں ہمیں ہوٹل سروسز میں ویٹر کی جگہ روبوٹ ، ائیرپورٹ اور دیگر حساس مقام میں Body Scanners کا استعمال ، بغیر ڈرائیور کارز اوردفاعی انداز میں ڈرون کا استعمال وغیرہ ہے۔

جواب

"آرٹیفیشل انٹلجینس"یعنی مشینوں اور کمپیوٹرز میں ذہانت اور انسانی فکری مہارت کا ملکہ  پیدا کرنا اور ان سے كام لينا ایک مباح امر ہے،جس میں فی نفسہ کوئی شرعی قباحت نہیں ،لہذا روز مرہ کے کاموں میں  "آرٹیفیشل انٹلجینس" کا استعمال جائز ہے ،البتہ جس طرح دیگر مباح اشیاء کا حکم ہے کہ اگر اسے حرام اور ممنوع طریقہ پر استعمال کیا جائے یا ممنوع کام کے لیے استعمال کیا جائے تو ناجائز ہوگا ، بعینہ وہی حکم اس کا بھی ہے۔  باقی اگر جاندار کی صورت   یا تصویر پر مشتمل  روبوٹ بنایا جائے تو   یہ شرعًا  ناجائز ہے۔

وفي تفسير القرآن العظيم للسخاوي :

"{هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا} فيه دليل على أن أصل الأشياء بعد ورود الشرع على الإباحة."

وعلي هامشه:

"‌الأصل ‌في ‌الأشياء الإباحة؛لأن الإباحة هي الحكم الأصلي لموجودات الكون، وإنما يحرم ما يحرم منها بدليل من الشارع لمضرتها، والدليل على أن الحكم الأصلي للأشياء النافعة هو الإباحة: قوله - تعالى - ممتنا على عباده: وسخر لكم ما في السماوات وما في الأرض جميعا منه إن في ذلك لآيات لقوم يتفكرون [الجاثية: 13] وقوله - تعالى: هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا [البقرة: 29] ولا يتم الامتنان ولا يكون التسخير إلا إذا كان الانتفاع بهذه المخلوقات مباحا."

(تفسير سورة البقرة (مدنية)،ج:1،ص63،ط:دارالنشرللجامعات)

وفي المبسوط للسرخسي :

"أن ‌الأصل ‌في ‌الأشياء الإباحة، وأن الحرمة بالنهي عنها شرعا."

(باب الإكراه ،باب تعدي العامل،ج:24،ص:77،ط:دارالفكر)

وفي احكام القرآن للجصاص:

"لأن ‌كل ‌مباح حسن ولكنه لا ثواب فيه."

(سورة الإنعام ،ج:4،ص:199 ،ط:دارإحياء التراث العربي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144503100953

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں