بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عرشمان نام رکھنا کیسا ہے؟


سوال

 میرے  شوہر نے میرے بیٹے کا نام  عبدالہادی رکھا تھا، میرا بیٹا بہت زیادہ شرارتی ہے اور اکثر اس کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں رہتی ، کافی لوگوں نے کہا اس کا نام تبدیل کر دیں  اور جب یہ پیدا ہوا تھا تو     ہمارے کوئی جاننے والے بزرگ ہیں   انہوں نے اس کا نام "عرشمان" بتایا تھا کہ یہ اس کا نام رکھ لیں، لیکن اس کے ابو کو وہ نام پسند نہیں آیا  ،تو انہوں نے   ا س   کا نام عبدالہادی  ہی رکھا تھا،اب میں اس کا  نام   "محمد عرشمان علی"رکھنا چاہتی ہوں،آپ حضرات میری رہنمائی فر مائیں کہ یہ نام رکھنا منا سب ہو گا؟۔

جواب

"     ہادی   "                  اللہ تعا لی کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے،  جس کے معنی ہیں"ہدایت دینے والا"اور   "عبد"کے معنی ہیں،بندہ           "عبدالہادی "کے معنی :"ہدایت دینے والے کا بندہ"یہ نام اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبا ر      سے درست ہے،اس کو تبد یل  کر نے کی ضرورت نہیں،بچہ کا شرارتی ہو نااوراکثر اس کی طبعیت کا ٹھیک نہ رہنانام کی وجہ سے نہیں ہے،بلکہ دیگر اسباب ہو سکتے ہیں۔

 "محمد عرشمان علی" میں  "عرشما ن"دو الگ الگ لفظ  ہیں،"عرش "اور  "مان" عرش: عربی زبان کا لفظ ہے،اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے،جس کے معنی  :چھت،تخت،آٹھواں آسمان وغیرہ کے آتے ہیں۔مان:اردو   زبا ن کا لفظ ہے،اس کے معنی:        (1)گھمنڈ،غرور،تکبر  ،نخوت(2)عزت ، قدر،منزلت،(3)خاطر تواضع،آؤ بھگت کے آتے ہیں۔    

(فیروز اللغات :ج 1،ص 945ِ ، ص 1248،ط: فیروز سینٹر۔لاہور )

عرشمان  نامو ں کے لیے غیر مشہور ہے ،معنی کے اعتبار سے اچھا نہیں   ہے،اس لیے یہ نا م نہ رکھا جائے۔

مشکا ۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي الدرداء قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌تدعون ‌يوم ‌القيامة بأسمائكم وأسماء آبائكم فأحسنوا أسمائكم» رواه أحمد وأبو داود."

.(کتاب الا داب،باب الاسامی،ج3، ص1347، ط: المکتب الأسلامى۔ بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"التسمية باسم ‌لم ‌يذكره ‌الله ‌تعالى في عبادة ولا ذكره رسوله صلى الله عليه وسلم ولا يستعمله المسلمون تكلموا فيه، والأولى أن لا يفعل."

.(ج،6:ص 467:ط:ایچ ،ایم، سعید:کتاب الحظر والاباحۃ)

  المغرب فی تر تیب المعرب     میں ہے:

"(ع ر ش) : (‌العرش) السقف في قوله وكان عرش المسجد من جريد النخل أي من أفنانه وعيدانه (وفي قوله) لا بل عرش كعرش موسى المظلة تسوى من الجريد ويطرح فوقه الثمام (ومنه) حديث ابن عمر أنه كان يقطع التلبية إذا نظر إلى عروش مكة يعني بيوت أهل الحاجة منهم وعريش الكرم ما يهيأ ليرتفع عليه والجمع عرائش."

(ج1 ،ص350، ط: دار الكتاب العربي )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508101234

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں