بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ارشان الدین نام رکھنا


سوال

کیا بچے کا نام ارشان الدین رکھنا جائز ہے ؟بعض لغت میں ارشان کا معنی مضبوط اور بہادر آدمی ہے اور بعض میں اس کا معنی آنسو یا خون کا ٹپکنا ہے،یہ  نام  رکھنے میں مجھے کنفیوژن ہے،  اس لیے براۓ مہربانی راہ نمائی فرمائیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں ارشان کو اگر را کے سکون کےساتھ پڑھا جائے تو  اس کا معنی ہوگا آنسو یا خون کا ٹپکنا۔(حسن اللغات فارسی،ص:432،ط:اورینٹل بک سوسائٹی گنپت روڈ لاہور)

اور اگر را پر کسرہ پڑھا جائے تو اس کا معنی ہوگا بہت زیادہ  سمجھ داراور  یہ نام اردشیر دوم کے بیٹے کانام تھا جو کہ ایرانی بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ  تھا۔ (لغات فارسی،ص:32،ط:دار عمر فاروق حضرو)

لہذا  نادر غیرمعروف اور نامناسب معنی والے نام کے بجائے کوئی اچھا سا  مناسب معنی والا نام یا انبیاء ،صحابہ،صلحاء میں سے کسی کا نام پسند کرکے  رکھاجائے،مذکورہ نام را کے سکون کےساتھ نامناسب معنی کی وجہ سےاور لوگوں کا صحیح اور غیر صحیح  تلفظ میں  فرق نہ کرنے کی وجہ سے  نہ رکھاجائے۔

سنن ابی داود میں ہے:

"عن أبى الدرداء قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- « إنكم تدعون يوم القيامة بأسمائكم وأسماء آبائكم فأحسنوا أسماءكم »."

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن تم اپنے اوراپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤگے لہٰذا اچھے نام رکھاکرو۔

(سنن أبي داؤد، باب في تغییر الأسماء 4/ 442 ط: دار الکتاب العربي بیروت)

تحفۃ المودود بأحکام المولودمیں ہے:

"عن أبي الدرداء قال قال رسول الله إنكم تدعون يوم القيامة بأسمائكم وبأسماء آبائكم فأحسنوا أسماءكم رواه أبو داود بإسناد حسن وعن ابن عمر قال رسول الله إن أحب أسمائكم إلى الله عز و جل عبد الله وعبد الرحمن رواه مسلم في صحيحه"۔

(تحفة المودود بأحکام المولود، الباب الثامن في ذکر تسمیة و أحکاماھا، الفصل الثاني فیما یستحب من الأسماء و ما یکرہ فیھا ص:112 ط: دار البیان دمشق)

سنن أبي داؤدمیں ہے:

"عن أبي وهب الجشمى وكانت له صحبة قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- « تسموا بأسماء الأنبياء وأحب الأسماء إلى الله عبد الله وعبد الرحمن وأصدقها حارث وهمام وأقبحها حرب ومرة »"۔

حضرت ابوہب جشمی کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا انبیاء کے ناموں پراپنے نام رکھو، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین نام عبداللہ و عبدالرحمن ہیں اور سب ناموں سے سچے نام حارث وہمام ہیں اور سب سے برے نام حرب اورمُرہ ہیں۔

(سنن أبي داؤد باب في تغییر الأسماء 4/ 443 ط : دار الکتاب بیروت)

تحفة المودود بأحکام المولودمیں ہے:

"عن عبد الرحمن بن جبير عن يعيش الغفاري قال دعا النبي يوما بناقة فقال من يحلبها فقام رجل فقال ما اسمك قال مرة قال اقعد فقام آخر فقال ما اسمك قال جمرة قال اقعد ثم قام رجل فقال ما اسمك قال يعيش قال احلبها  قال أبو عمر هذا من باب الفأل الحسن لا من باب الطيرة وعندي فيه وجه آخر وهو أن بين الاسم والمسمى علاقة ورابطة تناسبه وقلما يتخلف ذلك فالألفاظ قوالب للمعاني والأسماء أقوال المسميات"۔

(تحفة المودود بأحکام المولود، الباب السادس في العقیقة و أحکامھا،الفصل الخامس في اشتقاقھا و من أي شيء أخذت 1/ 51-52 ط: دار البیان دمشق)  

المحیط البرھانیمیں ہے:

"وفي الفتاوی: التسمية باسم لم یذکرہ اللہ تعالی في کتابه و لا ذکرہ رسول اللہ علیه السلام، و لا استعمله المسلمون تکلموا فیه و الأولی أن لاتفعل۔"

(المحیط البرھاني، کتاب الاستحسان والکراھیة، الفصل الثانی والعشرون في تسمیة الأولاد وکناھم 5/ 382 ط: دار الکتب العلمیة بیروت)

و کذا في الفتاوی الھندیة ،کتاب الکراھیة، الباب الثاني والعشرون فی تسمیة الأولاد وکناھم 5/ 362 ط: حقانیہ پشاور۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308101757

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں