بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ارقم شحات نام رکھنا


سوال

 مؤدبانہ عرض ہے رہنمائی فرما دیں کہ ارقم شحات نام رکھنا کیسا ہے ؟ 

جواب

واضح رہے کہ :

۱)لفظ"ارقم" صحابی رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا نام ہے لہذا لفظ "ارقم کو نام کے طور پر استعمال کرنا درست بلکہ مستحسن ہے۔

۲) لفظ "شحات" کے حروف کا مادہ " ش ح ت" ہے اور اس کے عربی زبان میں معنی تیز کرنے کے ہیں مثلا چھری تیز کرنا وغیرہ، اس معنی کے لحاظ سے لفظ "شحات" اسم مبالغہ کا صیغہ ہوگا اور اس کے معنی ہوں گے "بہت زیادہ تیز کرنے والا"۔پس یہ معنی نام رکھنے کے لیے مناسب نہیں۔

مندرجہ بالا تفصیل کی رو سے سائل اگر چاہے تو صرف "ارقم" نام رکھ لے، اس کے ساتھ لفظ "شحات" کا اضافہ نہ کرے۔ 

تاج العروس میں ہے:

"شحت السكين: إذا شحذه، أثبته ابن الأثير، وقال في النهاية في الحديث: (هلمي المدية، فاشحتيها بحجر، أو سنيها)."

(فصل الشین العمجمہ مع المثناۃ الفوقیۃ ج نمبر ۴ ص  نمبر ۵۷۹،وزارة الإرشاد والأنباء في الكويت)

أسد الغابة في معرفة الصحابة  میں ہے:

"الأرقم بن أبي الأرقم.

د ب ع: الأرقم بْن أَبِي الأرقم واسم أَبِي الأرقم عبد مناف بْن أسد بْن عَبْد اللَّهِ بْن عمر بْن مخزوم القرشي المخزومي. وأمه أميمة بنت عبد الحارث، وقيل: اسمها تماضر بنت حذيم من بني سهم، وقيل: اسمها صفية بنت الحارث بْن خَالِد بْن عمير بْن غبشان الخزاعية، يكنى: أبا عَبْد اللَّهِ. كان من السابقين الأولين إِلَى الإسلام، أسلم قديمًا، قيل: كان ثاني عشر، وكان من المهاجرين الأولين، وشهد بدرًا، ونفله رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ منها سيفًا، واستعمله عَلَى الصدقات."

(باب الھمزہ مع الراء ج نمبر ۱ ص نمبر ۱۸۷،دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101039

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں