بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آرمی کے ایک ادارہ میں جمعہ کا حکم


سوال

میں آرمی کے ایک ادارے میں ملازمت کرتا ہوں اور جس جگہ پر میں ڈیوٹی کرتا ہوں ، وہاں ہم 20 سے 25 بندے ہیں اور ایک چھوٹی سی مسجد ہے جس میں ہم جماعت کے ساتھ پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں، مزید وضاحت کروں  تو اس مسجد میں ہم کو لاؤڈ  اسپیکر میں اذان دینے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی اس مسجد میں کوئی امام مقرر ہیں، ہم میں 4 بندے ہیں جو  ان میں سے موجود ہوتا ہے وہ امامت کرواتا ہے۔ ان بندوں میں ایک حافظ قرآنِ پاک ہے اور ایک میں خود ہوں اور میں نے تجوید اور خامسہ تک درس نظامی کیا ہوا ہے اور 2 نمازی ہیں ،جو اگر ہم دونوں میں سے کوئی نہ ہو تو وہ امامت کرواتے ہیں۔ اب کرونا کی وجہ سے اکثر ہمیں  ساتھ دوسرے ادارے میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں ملتی اور ہم اپنی مسجد میں  علیحدہ علیحدہ نماز ادا کرتے ہیں۔ برائے مہربانی فرما کر وضاحت کریں کہ  کیا ہم جمعہ کی نماز اپنی مسجد میں ادا کر سکتے ہیں یا نہیں؟اگر جمعہ کی جماعت نہیں کر سکتے تو کیا ہم ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ اپنی  مسجد میں ادا کر سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی جس ادارہ میں ڈیوٹی ہے وہ ادارہ اگر شہر یا فناءِ شہر (فناءِ شہر ہر اس جگہ کو کہا جائے گا جو شہر کی ضروریات کے لیے بنائی جائے جیسے قبرستان ،گھڑ دور کا میدان ،فوجیوں کے لیے چھاؤنی وغیرہ) یا بڑے گاؤں ( وہ گاؤں جہاں ضروریات کی ساری اشیاء میسر ہوں اور ہسپتال ، پولیس تھانہ وغیرہ بھی موجود ہو اور آبادی کم و بیش ڈھائی سے تین ہزار نفوس پر مشتمل ہو)  میں ہے تو  پھر ادارہ کے ملازمین پر جمعہ واجب ہوگا اور ادارہ کے  اندر موجود مسجد میں جمعہ کی ادائیگی واجب ہوگی بشرطیکہ  امام کے علاوہ جماعت میں  تین  یا اس سے زیادہ  بالغ افراد موجود  ہوں، اگر مذکورہ ادارہ دیہات /گاؤں میں ہے تو پھر ادارہ کے ملازمین پر جمعہ واجب نہیں ہے اور ادارہ  کی مسجد میں شرعًا جمعہ جائز نہیں ہوگا اور سائل اور ادارہ کے دیگر ملازمین ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کریں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) السابع: (الإذن العام)  من الإمام، وهو يحصل بفتح أبواب الجامع للواردين كافي فلا يضر غلق باب القلعة لعدو أو لعادة قديمة لأن الإذن العام مقرر لأهله وغلقه لمنع العدو لا المصلي، نعم لو لم يغلق لكان أحسن كما في مجمع الأنهر معزيا لشرح عيون المذاهب قال: وهذا أولى مما في البحر والمنح فليحفظ (فلو دخل أمير حصنا) أو قصره (وأغلق بابه) وصلى بأصحابه (لم تنعقد) ولو فتحه وأذن للناس بالدخول جاز وكره

و في الرد : (قوله لأن الإذن العام مقرر لأهله) أي لأهل القلعة لأنها في معنى الحصن والأحسن عود الضمير إلى المصر المفهوم من المقام لأنه لا يكفي الإذن لأهل الحصن فقط بل الشرط الإذن للجماعات كلها كما مر عن البدائع (قوله: وغلقه لمنع العدو إلخ) أي أن الإذن هنا موجود قبل غلق الباب لكل من أراد الصلاة، والذي يضر إنما هو منع المصلين لا منع العدو ...... (قوله: أو قصره) كذا في الزيلعي والدرر وغيرهما، وذكر الواني في حاشية الدرر أن المناسب للسياق أو مصره بالميم بدل القاف.

قلت: ولا يخفى بعده عن السياق. وفي الكافي التعبير بالدار حيث قال: والإذن العام وهو أن تفتح أبواب الجامع ويؤذن للناس، حتى لو اجتمعت جماعة في الجامع وأغلقوا الأبواب وجمعوا لم يجز، وكذا السلطان إذا أراد أن يصلي بحشمه في داره فإن فتح بابها وأذن للناس إذنا عاما جازت صلاته شهدتها العامة أو لا وإن لم يفتح أبواب الدار وأغلق الأبواب وأجلس البوابين ليمنعوا عن الدخول لم تجز لأن اشتراط السلطان للتحرز عن تفويتها على الناس وذا لا يحصل إلا بالإذن العام. اهـ.

قلت: وينبغي أن يكون محل النزاع ما إذا كانت لا تقام إلا في محل واحد، أما لو تعددت فلا لأنه لا يتحقق التفويت كما أفاده التعليل تأمل (قوله لم تنعقد) يحمل على ما إذا منع الناس فلا يضر إغلاقه لمنع عدو أو لعادة كما مر ط.

قلت: ويؤيده قول الكافي وأجلس البوابين إلخ فتأمل (قوله وأذن للناس إلخ) مفاده اشتراط علمهم بذلك، وفي منح الغفار وكذا أي لا يصح لو جمع في قصره لحشمه ولم يغلق الباب ولم يمنع أحدا إلا أنه لم يعلم الناس بذلك. اهـ."

 (کتاب الجمعۃ ج نمبر ۲ ص نمبر ۱۵۲،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے: 

"(و) السادس: (الجماعة) وأقلها ثلاثة رجال (ولو غير الثلاثة الذين حضروا) الخطبة (سوى الإمام) بالنص لأنه لا بد من الذاكر وهو الخطيب وثلاثة سواه بنص - {فاسعوا إلى ذكر الله} 

و في الرد: (قوله سوى الإمام) هذا عند أبي حنيفة ورجح الشارحون دليله واختاره المحبوبي والنسفي كذا في تصحيح الشيخ قاسم (قوله بنص {فاسعوا} [الجمعة: 9] لأن طلب الحضور إلى الذكر متعلقا بلفظ الجمع وهو الواو يستلزم ذاكرا فلزم أن يكون مع الإمام جمع وتمامه في شرح المنية"

(کتاب الصلاۃ باب الجمعۃ ج نمبر ۲ ص نمبر ۱۵۱،ایچ ایم سعید)

فتاوی دار العلوم دیوبند:

کار خانے کے اندر جہاں عام اجازت نہیں جمعہ جائز ہے:

جمعہ وہاں درست ہے اور کارخانہ والوں  کو اذن ہونا کافی ہے اور کارخانوں کی جماعت وہاں جمعہ ادا کر سکتی ہے۔الخ

(کتاب الجمعہ ج نمبر ۵ ص نمبر ۹۲ دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100168

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں