بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فوجی چھاؤنی میں داخل ہونے والے کتے کو مارنے کا حکم


سوال

میں فوجی چھاؤنی میں ملازمت کرتا ہوں ، میری ڈیوٹی یہ لگائی ہے کہ جو بھی کتا یا کتی چھاؤنی میں داخل ہو اس کو گولی مار کر قتل کروں، حالاں کہ کچھ کتیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے بچے ہوتےہیں، میں نے کہا کہ میری ڈیوٹی تبدیل کر دو لیکن وہ نہیں کر رہے، اب اگر میں قتل کرتا ہوں تو اس کا گناہ کس پر ہوگا؟ اس معاملے میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ 

جواب

واضح رہے کہ اگر کتا موذی یعنی نقصان پہنچانے والا ہو تو شرعاً اسے مارنے کی اجازت ہے، بصورتِ دیگر بلاوجہ کتے کو مارنا جائز نہیں ہے، صحیح مسلم میں حضرت   سیدہ  عائشہ  صدیقہ   رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  پانچ جانور ایذا  دینے والے ہیں،  انہیں حرم اور غیرحرم میں قتل کیا جاسکتا ہے:  سانپ  سیاہ وسفید، کوا، چوہا، کاٹنے والا کتا اور چیل۔

صورتِ مسئولہ میں فوجی چھاؤنی میں کتے کا آنا  اگر واقعۃً  خطرناک اور نقصان دہ ہو (مثلاً:  کتے  سے دشمن کی طرف سے جاسوسی وغیرہ کا خطرہ ہو) تو اولاً اسے بھگائیں،  نہ جائے توپھر اس  کو مارنے کی گنجائش ہے اور ایسی صورت میں کتے کو مارنے میں گناہ نہیں ہے، اور اگر اس طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور  وہ نقصان دہ بھی نہیں ہے تو اس کو مارنا جائز نہیں ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « ‌خمس ‌من ‌الدواب كلها فواسق، تقتل في الحرم: الغراب، و الحدأة، و الكلب العقور، والعقرب، و الفأرة »".

(كتاب الحج، باب مايندب للمحرم و غيره قتله من الدواب في الحل والحرم، 4/ 18، ط: دار الطباعة العامرة)

الدر المختار میں ہے:

"و جاز قتل ما يضر منها ككلب عقور و هرّة) تضر (و يذبحها) أي الهرة (ذبحًا)."

وفي الشامية:

"(قوله: و هرّة تضر) كما إذا كانت تأكل الحمام و الدجاج، زيلعي (قوله: و يذبحها) الظاهر أن الكلب مثلها، تأمل".

(‌‌مسائل شتى، 6/ 752، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"و في الخلاصة ولو كان لرجل ‌كلب ‌عقور يؤذي من مر به فلأهل البلد أن يقتلوه".

(كتاب الديات، باب ما يحدث الرجل في الطريق، 8/ 413، ط: دار الکتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307100819

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں