بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ارکان کمیٹی کا ہرماہ متعین رقم جمع کرکے قرعہ اندازی کے ذریعے نکلنے والے رکن کمیٹی کو جمع شدہ رقم دینے کا حکم


سوال

آج کل ہر علاقے میں یہ رواج ہے کہ چندافراد مل کر ایک کمیٹی بنا لیتے ہیں ، ہرماہ کمیٹی کا ہر رکن ایک متعین مقدار میں رقم جمع کرتا ہے ، پھر جمع شدہ پر قرعہ اندازی ہوتی ہے ، ارکان کمیٹی میں سے جس کا نام قرعہ میں برآمد ہو،اس کو جمع شدہ کل رقم ادا کر دی جاتی ہے ، ایسے ہرماہ چکر چلتا ہے ، باری باری ہررکن کمیٹی کو اس اکٹھی رقم سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا رہتا ہے ، اس کو امداد باہمی کی ایک شکل سمجھا جاتا ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا شرعا یہ صورت جائز ہے؟دلائل کےروشنی میں راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ ارکان کمیٹی مندرجہ ذیل شرائط کی رعایت رکھیں:

(1)تمام شرکاء ایک متعین مقدارمیں برابر رقم جمع کرائیں اور  ارکان کمیٹی میں سے کسی رکن کانام بذریعہ قرعہ اندازی نکلنے کی وجہ سے مذکورہ جمع شدہ رقم حوالے کی جائے۔

(2)تمام شرکاء اخیرتک شریک رہیں ،ایسانہ ہوکہ جس کانام قرعہ اندازی میں نکلتاجائے وہ جمع شدہ رقم وصول کرکے بقیہ اقساط سے بری الذمہ ہوتاجائے۔

(3)ارکان کمیٹی میں سے ہررکن کو ہر وقت بطورِ قرض  جمع کرائی گئی اپنی رقم واپس لینے کے مطالبہ کا پورا حق ہو، اس پر جبر نہ ہو،توایسی صورت میں ارکان کمیٹی کا رقم جمع کرکے قرعہ اندازی کے ذریعے نکالنا جائزہے ۔

البتہ اگرمذکورہ بالاشرائط میں سے کوئی بھی شرط مفقودہوتوایسی صورت میں مذکورہ کمیٹی میں شامل ہوناجائزنہیں ہوگا۔

قرآن کریم میں ہے :

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ."(الآية  : 278،279)

ترجمہ :"اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو۔پھر اگر تم (اس پر عمل) نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے (یعنی تم پر جہاد ہوگا) اور اگر تم توبہ کرلو گے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جاویں گے نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر کوئی ظلم کرنے پائے گا"۔(بیان القرآن)

 صحیح مسلم میں ہے : 

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: هم سواء ."

(باب لعن آكل الربا ومؤكله ج : 3 ص : 1219 ط : دار إحياء التراث العربي)

المحیط البرہانی میں ہے :

"ذكر محمد رحمه الله في كتاب الصرف عن أبي حنيفة رضي الله عنه: أنه كان يكره ‌كل ‌قرض فيه جر منفعة، قال الكرخي: هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد، وذلك بأن أقرضه غلته ليرد غلته صحاحاً أو ما أشبه ذلك، وإن لم يكن مشروطاً فأعطاه المستقرض أجود مما عليه فلا بأس به."

(‌‌كتاب الاستحسان والكراهية،الفصل التاسع والعشرون في القرض ما يكره من ذلك، وما لا يكره ج : 5 ص : 394 ط : دارالكتب العلمية)

 فتاوی ہندیہ میں ہے :

"قال محمد - رحمه الله تعالى - في كتاب الصرف إن أبا حنيفة - رحمه الله تعالى - كان يكره ‌كل ‌قرض جر منفعة قال الكرخي هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض غلة ليرد عليه صحاحا أو ما أشبه ذلك فإن لم تكن المنفعة مشروطة في العقد فأعطاه المستقرض أجود مما عليه فلا بأس به."

(كتاب البيوع،الباب التاسع عشر في القرض والاستقراض والاستصناع ج : 3 ص : 202 ط : رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101514

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں