بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عاریتاً دیے ہوئے سونے کا حکم


سوال

میری بہو کی شادی کے وقت ہم نے اس کا چار تولہ سونا مہر مقرر کیا تھا، جو ہم نے اس کے حوالے کردیا تھا اور وہ اس کے پاس ہے، بعد میں میری بیوی نے اسے دو تولہ سونے کا زیور دیا اور نیت یہ تھی کہ جب ہمارے دوسرے بیٹے کی شادی ہوگی تو اس سے لے کر نئی بہو کو دے دیں گے (پہننے کے لیے دیا تھا، مالکانہ نہیں)، پھر کچھ عرصے بعد ہم نے یہ دو تولہ سونا واپس بھی لے لیا، اب میری بہو اپنے والدین کے ہاں ہےاور کہتی ہے کہ وہ دو تولہ سونا میرا ہے، اگرواپس کرو گے تو گھر آؤں گی، آپ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ مذکورہ سونا کس کا ہے اور کسے ملنا چاہیے؟

جواب

اگر بہو کو واقعتا ً چار تولے سونے مہر کے علاوہ مزید دو تولہ سونا صرف پہننے کو دیا گیا تھا، مالکانہ طور پر نہیں دیا گیا تھا تویہ دو تولہ سونا اس کی ملکیت نہیں ہوا تھا، لہذا اگر اس سے یہ سونا واپس لے لیا گیا ہے تو ایسا کرنا شرعاً جائز ہے اور بہو کے مطالبہ کرنے کی صورت میں اسے یہ واپس کرنا  ضروری نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌جهز ‌ابنته بما يجهز به مثلها ثم قال كنت أعرتها الأمتعة إن العرف مستمرا) بين الناس (أن الأب يدفع ذلك) الجهاز (ملكا لا إعارة لا يقبل قوله) إنه إعارة لأن الظاهر يكذبه (وإن لم يكن) العرف (كذلك) أو تارة وتارة (فالقول له) به يفتى كما لو كان أكثر مما يجهز به مثلها فإن القول له اتفاقا (والأم) وولي الصغيرة (كالأب) فيما ذكره، وفيما يدعيه الأجنبي بعد الموت لا يقبل إلا ببينة شرح وهبانية وتقدم في باب المهر وفي الأشباه."

(كتاب العارية، 5/ 684، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102255

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں