بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر پوچھے عاریت کی چیز آگے دینا


سوال

ایک شخص تبلیغ کے  لیے چلہ لگانے جارہا تھا، اس نے مجھ سے سلیپنگ بیگ مانگا کہ میں چلہ مکمل کرکے واپس کردوں گا، لیکن  وہ چلہ پورا کرکے واپس آیا  اور سلپنگ بیگ واپس نہیں دیا۔جب میں نے اس سے کہا: میرا سلپنگ بیگ مجھے واپس دو۔ تو اس نے جواب دیا کہ میرے پاس پڑا ہے۔  مجھے ٹائم ملے گا،  میں و اپس  کردوں گا،  لیکن آج 15 دن ہوگئے اس نے میرا سلپنگ بیگ مجھے واپس نہیں کیا۔ اور وہ کل شام کو ایرانی بلوچستان  چلا گیا۔

ایسے شخص کے بارے میں شریعت کیا کہتی  ہے؟  برائے مہربانی مجھے مسئلہ بتائیں؛ تاکہ میں شریعت کے مطابق اس سے معاملہ کروں!  وہ  سلپنگ بیگ میرا اپنا نہیں تھا،  میں نے کسی سے کراچی اجتماع میں 3  دن  گزارنے کے  لیے لیا تھا!

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جب  مذکورہ سلیپنگ بیگ آپ کا نہیں تھا، بلکہ آپ نے صرف تین دن گزارنے کے لیے کسی سے عاریتًا لیا تھا تو   اوّلًا آپ کے لیے مالک کی اجازت کے بغیر آگے کسی کو  دینا ہی درست نہیں تھا، خصوصًا اگر آپ کو اندازہ تھاکہ اس کا مالک آگے دینے پر دل سے راضی نہیں ہوگاتو آپ کے لیے دوسرے شخص کو دینا جائز ہی نہیں تھا،نیز  جب   مذکورہ شخص  نے آپ سے کچھ   وقت کے  لیے  عاریت پر یہ سلیپنگ بیگ لیا تھا تو  اس کا وقت پر واپس کرنا اس کی ذمہ داری تھی ،  وقت گزرنے کے باوجود اس کا ٹال مٹول کرنا  شرعًا درست نہیں ہے؛ لہذا  آپ دونوں ہی کا قصور  ہے ۔

آپ دونوں کو ہی استغفار کرنا چاہیے اور اس شخص پر لازم ہے کہ وہ سلیپنگ بیگ آپ کو فورًا   واپس کرے اور آپ پر یہ لازم ہے کہ جلد از جلد  اس سلیپنگ  بیک  کے حقیقی مالک تک  اسے پہنچائیں، یا جب تک وہ سلیپنگ بیگ نہیں لوٹاتا آپ مالک کو حقیقتِ حال بتاکر معافی تلافی کرلیں، یا مالک کی اجازت سے اس شخص کے پاس رہنے دیں؛ تاکہ آپ بری الذمہ ہوجائیں۔

نوٹ: دین کے تمام شعبوں سے وابستہ افراد سے درد مندانہ التجا ہے کہ  بطورِ خاص معاملات  میں اسلامی اَحکام اور صفائی کا خوب اہتمام کریں، خصوصًا وہ لوگ جو براہِ راست دعوت و اشاعتِ دین سے وابستہ ہیں، انہیں تو کسی صورت  معاملات میں متساہل نہیں ہونا چاہیے؛ لیکن یہ ہمارا المیہ ہے کہ اچھے خاصے دین دار حضرات جو نماز، روزے اور تسبیحات  و نفلی اعمال وغیرہ کا تو بہت اہتمام کرتے ہیں، لیکن معاملات میں اتنے غافل واقع ہوتے ہیں کہ حرام کی حدود میں جاپڑتے ہیں، امام محمد رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے ہر طرح کے مسائل پر کتاب لکھی ہے، لیکن تصوف و تزکیہ پر کوئی کتاب نہیں لکھی، تو فرمایا: میں نے تصوف پر بھی کتاب لکھی ہے، پوچھنے پر بتایا کہ "كتاب البیوع" تصوف پر ہی ہے، یعنی جس  کتاب میں خرید و فروخت اور کسبِ حلال کے اَحکام ہیں، وہی  تصوف و تزکیہ  کی کتاب ہے، درحقیقت انسان کے اسلام کی آزمائش حلال و حرام میں  ہی ہوتی ہے۔

نیز دین کی دعوت و اشاعت سے وابستہ افراد کو اپنی معاشرت اور اَخلاق، اسلامی معاشرت اور اسلامی اَخلاق کے مطابق ڈھالنے چاہییں، دعوت کی محنت سے وابستہ   حضرات ہی اگر وعدے  کے کچے  اور معاملات میں غافل ثابت  ہوں تو اس سے دعوتِ دین کے کام سے برکت بھی اٹھے گی اور دوسروں پر ان کی دعوت و محنت کا اثر بھی نہیں ہوگا، بلکہ مخالفین کے لیے اعتراض کا موقع فراہم کرنے کا سبب ہوں گے، اور سب سے بڑھ کر خود کو کامیاب اور نیک سمجھتے رہیں گے، جب کہ گناہوں  کا شکار ہوتے رہیں گے۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 680):

"(وله أن يعير ما اختلف استعماله أولا إن لم يعين) المعير (منتفعًا و) يعير (ما لايختلف إن عين) و إن اختلف لا للتفاوت و عزاه في زواهر الجواهر للاختيار."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201313

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں