بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الاول 1446ھ 11 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

آڑھتی حضرات کا بیوپاری کو قرض دینے کے بعد اس بات کا پابند بنانا کہ مال میرے ہاتھوں فروخت کرائے گا/ آڑھتی کا جانبین سے کمیشن لینا/ ڈاک فون منشیانہ وصول کرنے کا حکم


سوال

 بیوپاری یا ٹھیکہ دار حضرات باغ خریدنے کے لیے آڑھتی حضرات سے  باغ خریدینے کے لیے قرض کے طور پرپیسے لیتے ہیں ،  پھر وہی آڑھتی اپنا قرض وصول کرنے کے لیے   بیوپاری کواپنے  باغ کا مال  اپنے  آڑھت میں لانے  کے  لیے پابند کرتا ہے تاکہ اپنا قرض وصول کرے یعنی وہ مال اُسی آڑھتی کے ذریعے اس کے آڑھت(کوٹھی ) پربکتا ہے، آڑھتی حضرات ان سے کمیشن کاٹتے ہیں، منڈی کے اصول کے مطابق جس کا مال بھی منڈی آتا ہے۔پھر مال خریدنے والے سے بھی منڈی کے اُصول کے مطابق  فی نگ 10 روپے یا 20 روپے نگوارہ ،ڈالہ ، لاغہ ،لیتے ہیں اور جب  وہ مال بک جاتا ہے   تو اس کے اوپر ڈاک فون یعنی پرچی بنانے پر 10 روپے اور منشیانہ یعنی جو شخص  حساب کرتا  ہے اس کے لیے بھی بیوپاری سے  متعین رقم لی جاتی ہے ، یہ سارا اس کے مال بکوانے پر دیا جاتا ہے ،آج کل ہر منڈی میں کاروبار آڑھتی  حضرات اپنے اصول اور طریقہ کار کے تحت کرتے ہیں،  اس کاروبار میں شریعت مطہرہ کیا کہتی ہے؟  تفصیلی جواب عنایت فرمائیں !

واضح رہے کہ آڑھتی  بیوپاری کا وکیل بن کر اس کا مال فروخت کرتا ہے ۔

جواب

واضح رہے کہ بیوپاری حضرات کا   آڑھتی سے باغ خریدنے کے لیے  قرض لینے  کے بعد آڑھتی کا اپناقرض وصول کرنے کے لیے بیوپاری کو اس بات کا پابند بنانا کہ اپنے  باغ کا مال مجھے ہی   فروخت کرنے کے لیے دینا  یعنی بیوپاری   اِسی آڑھتی کے ہاتھوں مال فروخت کرائے گا؛  تاکہ آڑھتی حضرات  اپنا قرض وصول کریں، بیوپاری کو اس طرح کا پابند بنانا درست ہے ، البتہ   آڑھتی   کا اس صورت میں   کمیشن بازار کے رواج سے زیادہ لینا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ وہ سود ہے   (یعنی وہ آڑھتی اس  کا مال   بیچنے کا اتنا ہی کمیشن لے جتنا دوسرے ایجنٹ سے  لیتے ہیں)  ، اگر آڑھتی بیوپاری کو    قرض دینے  کی وجہ سے مشروط طور پر  زیادہ کمیشن لے تو یہ قرض پر نفع لینے  کی وجہ سے سود ہوگا۔

آڑھتی جب بیوپاری کا وکیل ہے تو آڑھتی   صرف بیوپاری یعنی اپنے مؤکل سے کمیشن لے سکتا ہے،   خریدنے والوں سے کمیشن لینا جائز نہیں ہے۔

آڑھتی  کا بیوپاری سے ڈاک فون اورمنشیانہ کے طورپر رقم لینا درست ہے ،  بشرط یہ کہ بیوپاری اس پر راضی ہو ، اور منڈی کا رواج ہو۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبيمیں ہے:

"الدينار وتقاصا العشرة بالعشرة) أي يجوز ذلك ومعناه أن يكون لرجل على آخر عشرة دراهم دين فباعه الذي عليه العشرة دينارا بالعشرة التي عليه، أو بعشرة مطلقة ودفع الدينار إليه، ثم تقاصا العشرة بالعشرة فكلاهما جائز (قوله في المتن ‌ودينار ‌بعشرة إلخ) اعلم أن ههنا ثلاثة فصول الأول ما إذا باع الدينار بعشرة مطلقة والثاني أن يضيف إلى الدين بأن يبيع."

(کتاب الصرف، ج:4، ص:139، ط:دار الكتاب الإسلامي)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"(وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن قرض جر نفعا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض، فأما إذا كانت غير مشروطة فيه ولكن المستقرض أعطاه أجودهما؛ فلا بأس بذلك؛ لأن الربا اسم لزيادة مشروطة في العقد، ولم توجد، بل هذا من باب حسن القضاء، وأنه أمر مندوب إليه قال النبي عليه السلام: «خيار الناس أحسنهم قضاء» .

«وقال النبي عليه الصلاة والسلام عند قضاء دين لزمه - للوازن: زن، وأرجح."

(کتاب  القرض، فصل في شرائط ركن القرض، ج:7،ص:394، ط:دار الكتب العلمية)

الدرالمختار مع ردالمحتار میں ہے:

"‌وأما ‌الدلال ‌فإن ‌باع ‌العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية (قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين."

(کتاب البیوع، مطلب: فساد المتضمن يوجب فساد المتضمن، ج:7، ص:93، ط:رشیدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: ‌وفي ‌الدلال ‌والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."

(کتاب الإ جارۃ، ‌‌باب الإجارة الفاسدة، مطلب:في أجرۃ الدلال، ج:9، ص:107، ط:رشیدیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144512101482

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں