بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ارحم نام رکھنے کا حکم


سوال

 کیا ارحم نام رکھنا  درست  ہے؟

جواب

"ارحم" کا معنی ہے: زیادہ رحم دل، ایک حدیث میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو "أرحم أمّتي"یعنی امت کا سب سے زیادہ رحیم شخص کہا گیا ہے،  اور ایک اور حدیث میں ہے حضرت انسں بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے  آپ ﷺ  سے  زیادہ کسی اور کو اپنے اہل وعیال پر رحم کرنے والا نہیں دیکھا، یہاں آپ ﷺ کے لیے بھی "أرحم" کا لفظ استعمال کیا  گیاہے، اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ"أرحم"نام رکھنا اس لیے مناسب نہیں کیونکہ"أرحم"زیادہ رحم کرنے والے کو کہتے ہیں، اور وہ ذات اللہ رب العزت کی ہے، تو یہ شبہ درست نہیں ہے ، اس لیے کہ "أرحم"  اسم تفضیل کا صیغہ ہے اور یہ  مشترکہ اسماء میں سے ہے، اور اللہ کے علاوہ اور مخلوق کے لیے بھی اس کا  استعمال کیا گیا ہے، نیز عام طور پر اللہ کے لیے یہ لفظ جب استعمال ہوتا ہے تو   "أرحم الراحمین"  استعمال ہوتا ہے،اس لیے "أرحم"نام رکھنا جائز ہے اور اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَأَيُّوْبَ إِذْ نَادٰى رَبَّه ٓأَنِّيْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِيْنَ."(الأنبياء: 83)

"لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ، يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ."(يوسف: 92) 

سنن ترمذی میں ہے:

"عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أرحم أمتي بأمتي أبو بكر." 

(‌‌‌‌أبواب المناقب، باب مناقب معاذ بن جبل وزيد بن ثابت وأبي وأبي عبيدة بن الجراح رضي الله عنهم، ج:6، ص:127، ط: دار الغرب الإسلامي)

صحيح مسلم میں ہے:

"عن أنس بن مالك، قال: «ما رأيت أحداً كان أرحم بالعيال من رسول الله صلى الله عليه وسلم»."

(‌‌كتاب الفضائل، باب رحمته صلى الله عليه وسلم الصبيان والعيال، ج:7، ص:86، ط: دار الطباعة العامرة)

مصنف ابن أبی شیبہ میں ہے:

"عبد الله بن نمير قال: حدثنا سفيان، قال: حدثنا سلمة بن كهيل، عن أبي الزعراء، عن عبد الله ... قال: ثم يقول: أنا أرحم الراحمين، قال: فيخرج من النار أكثر مماأخرج من جميع الخلق برحمته حتى ما يترك فيها أحداً فيه خير." 

(‌‌كتاب الفتن، ‌‌ما ذكر في فتنة الدجال، ج:7، ص:511، ط: دار التاج - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101080

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں