بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ارحم علی اور میھال فاطمہ نام رکھنا


سوال

 ارحم علی نام رکھنا کیسا ہے اور میہال فاطمہ نام رکھنا کیسا ہے؟

جواب

’’اَرحم‘‘ الف پر زبر کے ساتھ کا معنی ہے: زیادہ رحم دل، ایک حدیث میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ’’ارحم امتی‘‘یعنی امت کا سب سے زیادہ رحیم شخص کہا گیا ہے،  اور ایک اور حدیث میں ہے حضرت انسں بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی اور کو اپنے اہل وعیال پر رحم کرنے والا نہیں دیکھا، یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی ’’ارحم‘‘ کا لفظ استعمال کیا  گیاہے،اور ’’علی‘‘مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام ہے،    اس لیے ’’ ارحم علی‘‘  نام  رکھنا  جائز ہے  اور  اس میں  شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔

"میہال": عربی لغات میں تلاش کے باوجود اس کا معنی نہیں ملا؛  لہٰذا یہ نام نہ رکھا جائے، اور اگر کسی اور زبان کا لفظ ہے تو باحوالہ کسی مستند عالم کو دکھا کر حکم معلوم کرلیاجائے۔اسی کے تلفظ سے قریب قریب ایک لفظ "مِحال "ہے میم کے نیچے زیر کے ساتھ  جس کا معنی :مکروفریب کرنےوالا،کسی کے خلاف حاکم سے شکایت کرنے والا،نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے والا،جھگڑا اور دشنی کرنے والا  اور  سخت سزا دینے والا ہے،ان معانی کے اعتبار سے مِحال نام رکھنا درست نہیں ہے،جبکہ"فاطمہ" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نام ہے،لہذا صرف فاطمہ نام رکھ لیاجائے۔

سنن الترمذی میں ہے:

"عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:أرحم أمتي بأمتي أبو بكر."

(أبواب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،باب مناقب معاذ بن جبل، وزيد بن ثابت، وأبي، وأبي عبيدة بن الجراح رضي الله عنهم،ج5،ص664،ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

صحیح مسلم  میں ہے:

"عن أنس بن مالك، قال: ما رأيت أحداً كان أرحم بالعيال من رسول الله صلى الله عليه وسلم."

(كتاب الفضائل، باب رحمته صلى الله عليهِ وسلم الصبيان والعيال وتواضعه وفضل ذلك،ج2،ص261، ط: رحمانیہ)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"وجاز التسمية بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى. 

 (قوله: وجاز التسمية بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها وظاهره الجواز ولو معرفاً بأل."

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج6،ص417، ط: سعید)

لسان العرب میں ہے:

"‌المحال مأخوذ من قول العرب محل فلان بفلان أي سعى به إلى السلطان وعرضه لأمر يهلكه، فهو ماحل ومحول، والماحل: الساعي."

(فصل المیم،ج11،ص618،ط؛دار صادر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100447

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں