بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اَرحم علی نام رکھنا


سوال

میں اپنے بیٹے کا نام ’’ارحم علی‘‘رکھنا چاہتا ہوں ، یہ  نام رکھنا کیسا ہے؟

جواب

’’ارحم‘‘ کا معنی ہے: زیادہ رحم دل، ایک حدیث میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ’’ارحم امتی‘‘یعنی امت کا سب سے زیادہ رحیم شخص کہا گیا ہے،  اور ایک اور حدیث میں ہے حضرت انسں بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے  آپ ﷺ سے زیادہ کسی اور کو اپنے اہل وعیال پر رحم کرنے والا نہیں دیکھا، یہاں آپ ﷺ کے لیے بھی ’’ارحم‘‘ کا لفظ استعمال کیا  گیاہے،  اس لیے ’’ ارحم‘‘ (یا باپ/دادا کا نسبی نام   ساتھ  استعمال کرتے ہوئے "اَرحم  علی")  نام  رکھنا  جائز ہے  اور  اس میں  شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔

ترمذی میں ہے:

’’عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أرحم أمتي بأمتي أبو بكر‘‘. 

(سنن الترمذي ،‌‌أبواب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،باب مناقب معاذ بن جبل، وزيد بن ثابت، وأبي، وأبي عبيدة بن الجراح رضي الله عنهم (5/ 664)، الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)


مسلم شریف میں ہے:

"عن أنس بن مالك، قال: ما رأيت أحداً كان أرحم بالعيال من رسول الله صلى الله عليه وسلم".

(صحيح مسلم (2/261)،‌‌كتاب الفضائل، بَاب رَحْمَتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصِّبْيَانَ وَالْعِيَالَ، وَتَوَاضُعِهِ، وَفَضْلِ ذَلِكَ، حدیث رقم: 63،ط: رحمانیہ)

شامی میں ہے:

"وجاز التسمية بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى. 

 (قوله: وجاز التسمية بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها وظاهره الجواز ولو معرفاً بأل."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) ،(6/ 417)، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101777

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں