"اریحا"یا " حوریہ" نام رکھنا کیسا ہے ؟
اريحا:
"اریحا" نام کا ایک قدیم شہر ملک شام میں موجود ہے،اور یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے،نیز کسی لڑکے یا لڑکی کا نام کسی جگہ یا علاقے کے نام پر رکھنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ نبی ﷺ کا ارشاد کا مفہوم ہے کہ "اپنے بچوں کے اچھے نام رکھا کرو۔" لہذا بچیوں کے نام صحابیات رضوان اللہ علیہن اجمعین میں سے کسی کے نام پر یا اچھا معانی والارکھنا چاہیے، چناں چہ کسی لڑکی کا نام اریحہ یا اریحا، رکھنادرست نہیں ہے۔
حوریه:
"حوریہ" کا مطلب ہے کہ:
الف: افسانوی،انتہائی خوبصورت لڑکی جو سمندروں، جنگلوں اور دریاؤں میں دکھائی دیتی ہے۔
ب: خوبصورت، گوری، ملائم عورت، دلکش عورت جو اتنی خوبصورت ہو جیسے کہ وہ جنت کی حوروں میں سے ہو۔
البتہ یہ نام فراعین مصر میں سے ایک فرعون کی بیٹی کا نام تھا، لہذا لڑکی کا نام حوریہ رکھنا بہتر نہیں ہے۔
معجم البلدان میں ہے:
" أريحا:بالفتح ثم الكسر، وياء ساكنة، والحاء مهملة، والقصر، وقد رواه بعضهم بالخاء المعجمة، لغة عبرانية: وهي مدينة الجبارين في الغور من أرض الأردن بالشام، بينها وبين بيت المقدس يوم للفارس في جبال صعبة المسلك، سميت فيما قيل بأريحا بن مالك بن أرفخشد بن سام بن نوح، عليه السلام."
(الباب الخامس في جمل من أخبار البلدان، ا،باب الهمزة والراء وما يليهما،165/1،ط:دار صادر۔بیروت)
معجم اللغہ العربیہ المعاصرہ میں ہے:
"حُوريَّة [مفرد]: 1 - فتاة أسطوريّة بالغة الحُسْن تتراءى في البحار والغابات والأنهار. 2 - امرأة حسناء بيضاء ناعمة "هذه المرأة السّاحرة الجمال كأنّها من حوريّات الجنّة."
(ح، ح و ر، 579/1، ط:عالم الكتب)
الاستبصار فی عجائب الامصارمیں ہے:
"والفراعنة سبعة وهو كان أولهم. وقيل إنما سمى فرعون لأنه أكثر القتل حتى قتل قرابته وأهل بيته وخدمه ونساءه وكثيرا من الكهنة والحكماء. وكان حريصا على الولد فلم يرزق ولدا غير ابنة واحدة سماها حورية، وكانت عاقلة حكيمة، وكانت تسدد أباها كثيرا، وتمنعه من كثير من الشر والقتل. فلما رأت أمره يزداد فسادا خافت على زوال ملكه فسمته، فمات بعد أن ملك سبعين سنة."
(ذكر أول من نزل مصر بعد الطوفان،17/1، ط:دار الشؤون الثقافية، بغداد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506101209
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن