بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 جُمادى الأولى 1446ھ 02 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

عربی جبہ پہننے پرکسی کو مارنا شرعاً درست نہیں ہے


سوال

کیا مسجد میں عربی جبہ پہن لینا ناجائز ہے؟کیا جبہ پہننےپر کسی کو مار پیٹ کرنا مناسب ہے؟

جواب

واضح رہے کہ لباس کے معاملہ میں شریعت مطہرہ نے مرد وعورت کو کسی خاص وضع اور تراش کا پابند نہیں کیا،البتہ کچھ حدود وقیود رکھی ہیں جن سے تجاوز کی اجازت نہیں، ان حدود میں رہتے ہوئے کسی بھی وضع کو اختیار کرنے کی اجازت ہے۔

جن کا خلاصہ یہ ہے : 1) لباس اتنا چھوٹا ،باریک یا چست نہ ہو کہ جسم کے جن اعضاء کا چھپانا واجب ہے وہ یا ان کی ساخت ظاہر ہوجائے۔ 2) لباس میں مرد عورت کی یا عورت مرد کی مشابہت اختیار نہ کرے۔ 3) کفار وفساق کی نقالی اور مشابہت نہ ہو۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں عربی جبہ پہنناجائز ہے، شرعاًاس  میں کوئی قباحت نہیں ہے، اور صرف جبہ پہننے کی وجہ سےکسی  کو مارنے پیٹنے کی شرعاًاجازت نہیں ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

"يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ.(سورة الأعراف،ألاية:26)"

"ترجمہ:اے اولاد آدم (علیہ السلام) کی ہم نے تمھارے لیے لباس پیدا کیا جو کہ تمھاری پردہ داریوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقویٰ کا لباس یہ اس سے بڑھ کر ہے ، یہ الله تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔(بیان القرآن)"

تفسير ابن كثير ميں هے:

"يمتن تبارك وتعالى على عباده بما جعل لهم من اللباس والريش فاللباس (6) المذكور هاهنا لستر العورات -وهي السوآت (1) والرياش والريش: هو ما يتجمل به ظاهرا، فالأول من الضروريات، والريش من التكملات والزيادات.قال ابن جرير: "الرياش" في كلام العرب: الأثاث، وما ظهر من الثياب."

(تفسير سورة‌‌ الأعراف، الأية:24، ج:3، ص:400، ط: دار طيبة للنشر والتوزيع)

سنن الترمذی میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌المتشبهات ‌بالرجال ‌من ‌النساء ‌والمتشبهين بالنساء من الرجال»: «هذا حديث حسن صحيح."

(أبواب الأدب، ‌‌باب ما جاء في المتشبهات بالرجال من النساء، ج:5، ص:105، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

فتح الباری شرح شرح صحیح البخاری میں ہے:

"لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهين قال الطبري المعنى لا يجوز للرجال ‌التشبه ‌بالنساء في اللباس والزينة التي تختص بالنساء ولا العكس قلت وكذا في الكلام والمشي فأما هيئة اللباس فتختلف باختلاف عادة كل بلد فرب قوم لا يفترق زي نسائهم من رجالهم في اللبس لكن يمتاز النساء بالاحتجاب والاستتار وأما ذم التشبه بالكلام والمشي فمختص بمن تعمد ذلك وأما من كان ذلك من أصل خلقته فإنما يؤمر بتكلف تركه والإدمان على ذلك بالتدريج."

(قوله باب المتشبهين بالنساء والمتشبهات بالرجال، ج:10، ص:332، ط: دار المعرفة)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"(وعنه) : أي عن ابن عمر (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (من تشبه بقوم) : أي ‌من ‌شبه ‌نفسه ‌بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب. قلت: بل الشعار هو المراد بالتشبه لا غير، فإن الخلق الصوري لا يتصور فيه التشبه، والخلق المعنوي لا يقال فيه التشبه، بل هو التخلق."

(كتاب اللباس، ج:7، ص:2782، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508102708

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں