بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا میں اپنے بیٹے کا نام ارباب رکھ سکتا ہوں؟


سوال

کیا میں اپنے بیٹے کا نام ارباب رکھ سکتا ہوں؟

جواب

''ارباب''  جمع ہے ''رب''کی ۔اور لفظ''رب''بغیر کسی اضافت کے اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوتاہے۔اس کے معنی پرورش کرنے اور معبود کے آتے ہیں۔قرآنِ کریم میں ہے کہ کفار نے اپنے معبودانِ باطلہ کو اپنا رب بنالیا ہے، اس موقع پر ارباب کالفظ لایاگیاہے۔ ایک جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَمَآ اُمِرُوْآ اِلَّا لِیَعْبُدُوْآ اِلٰهاً وَّاحِدًا لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ سُبْحٰنَهٗ  عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ [التوبۃ: 31]

ترجمہ: انہوں (یہود ونصاریٰ) نے اپنے علماء (سوء) اور پادریوں اور مسیح ابن مریم کو معبود بنالیا ہے اللہ کو چھوڑ کر حال آں کہ انہیں حکم نہیں دیا گیا بجز اس کے کہ وہ ایک معبود کی عبادت کریں، نہیں ہے کوئی لائقِ عبادت سوائے اس کے، پاک ہے وہ اس سے جو یہ شرک کرتے ہیں۔

لہذا ''ارباب ''نام کی بجائے انبیاء  علیہم الصلاۃ والسلام،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا  تابعین کے ناموں میں سے کوئی نام منتخب کرکے رکھنا بہتر ہے۔

"التمہید شرح کتاب التوحید" میں ہے:

"إذا لفظ ( الرب ) و ( الإلهية ) من الألفاظ التي إذا اجتمعت افترقت، وإذا افترقت اجتمعت، فقد يطلق على الأرباب آلهة وعلى الآلهة أرباب ، وهل هذا الإطلاق لأجل اللغة ؟ يعني أن أصله في اللغة يدخل هذا في هذا، وهذا في ذاك ، أو أنه لأجل اللزوم والتضمن ؟ الظاهر - عندي - الأخير ، وهو أنه لأجل اللزوم والتضمن ، فإن الربوبية مستلزمة للألوهية ، والألوهية متضمنة للربوبية، فإذا ذكر الإله فقد تضمن ذلك ذكر الرب ، وإذا ذكر الرب استلزم ذلك ذكر الإله ، ولهذا قال جل وعلا هنا : ﴿ وَلَا يَأْمُرَكُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلَآئِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ اَرْبَابًا ﴾ [ آل عمران : 80 ] يعني : آلهة ؛ لاستلزام لفظ الربوبية للإلهية ، وكذلك قوله : ﴿ اتَّخَذُوْآ اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا ﴾ يعني : آلهةً معبودين، كما أتى تفصيله في الحديث".

وفیه أیضاً:

"وأما ما يأتي فيما جاء في رواية مسلم أنه قال: « وليقل: سيدي ومولاي »، فإنه جاء النهي كما سيأتي أيضاً عن إطلاق لفظ السيد، وهو سيد في الواقع، ويقال هذا على من كان له تقدم في السيادة، ولكن في الحديث الذي سيأتي أنه قال: « السيد الله »، فهذا؛ لأنه ليس من الأسماء المشهورة التي تختص بالرب مثل اسم: الرب، فالرب جل وعلا لا يطلق إلا على الله، ولا يستعمل لأحد إلا إذا كان مضافاً، مثل أن يقول: رب الدار! رب الكتاب".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200309

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں