بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عربی یا انگلش زبان سیکھنے کے لیے کارٹون دیکھنا یا موسیقی والی نشیدیں سننے کا حکم / کیا تکبیر اولیٰ کی فضیلت صرف مسجد کی جماعت کے ساتھ خاص ہے؟ / قرض کی ادائیگی کے وقت بلاشرط اضافی رقم دینے کا حکم


سوال

(1) عربی زبان یا انگلش زبان سیکھنے کے لیے  ایسے کارٹون دیکھنا جس میں عورت اور چھوٹی بچی بھی ہو، جائز ہے؟ یا ایسی عربی نشید سننا جس کے پیچھے میوزک ہو، جائز ہے؟

(2) اگر کسی کی تکبیر اولیٰ کے تیس دن ہوگئے ہوں  اور مسجد کی جماعت نکل جائے تو گھر میں جماعت کرانے سے تکبیر اولیٰ کا ثواب مل جائے گا؟ یا تکبیر اولیٰ صرف مسجد کی جماعت کے ساتھ خاص ہے ؟

(3) اگر کسی نے اپنے دوست سے بزنس  کے لیے دو لاکھ روپے قرضہ لیے اور واپسی میں دس ہزار زیادہ دیے، پھر دوبارہ یہی کیا یعنی قرضہ لے کر اس کو زائد پیسے دیے خود اپنی طرف سے، تو یہ مستقل ایسا کرنا سود ہوگا یا نہیں ؟ جب کہ قرضہ دینے والے نے یہ کرنے کا بولا نہیں  تھا۔

جواب

(1) واضح رہے کہ جاندار کی تصویر بلا عذر کھینچنا اور دیکھنا، دونوں گناہ کے کام ہیں، نیز موسیقی (میوزک) سننے کو بھی شریعت میں حرام قرار دیا گیا ہے، لہٰذا کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے جاندار (خصوصاً نامحرم) کی تصاویر پر مشتمل کارٹون یا ویڈیوز وغیرہ کو دیکھنا، یا موسیقی  کے ساتھ گائی جانے والی نظمیں یا نشیدیں وغیرہ سننا درست نہیں ہے، اس کے بجائے کسی زبان کو سیکھنے کے لیے اُس زبان کی معیاری اور ادبی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے، یا کم از کم ایسے ادبی اشعار وقصائد کو سنا جائے جو موسیقی سے خالی ہوں۔

حدیثِ مبارک میں ارشاد ہے:

"عن ‌عائشة رضي الله عنها: أنها اشترت ‌نمرقة فيها تصاوير، فقام النبي صلى الله عليه وسلم بالباب، فلم يدخل، فقلت: أتوب إلى الله مما أذنبت؟ قال: ما هذه النمرقة؟ قلت: لتجلس عليها وتوسدها، قال: إن أصحاب هذه الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم، وإن الملائكة لا تدخل بيتا فيه الصورة."

(صحيح البخاری، كتاب اللباس، ‌‌باب من كره القعود على الصورة، ٧/ ١٦٨، ط: دار طوق النجاة)

    ترجمہ:’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ انہوں نے ایک ایسا گدا خریدلیا تھاجس میں تصاویر تھیں، رسول اللہ   ﷺ نے جب ان تصویروں کو دیکھا تو دروازے پر رک گئے ،گھر میں داخل نہیں ہوئے، میں نے عرض کیا کہ: میں اللہ اور اس کے رسول  ﷺ کی طرف توبہ کرتی ہوں، میں نے کیا گناہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا :یہ گدا کیسا ہے؟میں نے عرض کیا کہ: یہ آپ کے بیٹھنے اور تکیہ لگانے کے  لیے ہے، آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ: ان تصویر والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا، ان سے کہا جائے گا کہ جو صورتیں تم نے پیدا کی ہیں، ان میں جان بھی ڈالو اور فرشتے اس مکان میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصاویر ہوں‘‘۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

‌"وظاهر ‌كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم و إناء."

(كتاب الصلاة ،مطلب في مكروهات الصلاة،١/ ٦٤٧، ط:سعيد)

امداد الفتاویٰ میں ہے:

’’... اگرچہ اس تصویر کی طرف کوئی امر مکروہ بھی منسوب نہ کیا گیا ہو، محض تفریح و تلذذ ہی کے لیے ہو؛ کیونکہ محرمات شرعیہ سے تلذذ بالنظر بھی حرام ہے: في الدر المختار كتاب الأشربة: و حرم الانتفاع بها (أي بالخمر) و لو لسقي دواب أو لطين أو نظر للتلهي... اور اگر وہ تصویر کسی مشتہاۃ کی ہو، تو نظرِ بد کی معصیت کا اس میں اور اضافہ ہوجاتا ہے، اور تصویر تو صاحبِ تصویر کی پوری حکایت ہے، اجنبیہ کے تو کپڑے کو بھی بدنفسی سے دیکھنا حرام ہے۔‘‘

(کتاب الحظر والاباحۃ، رسالہ تصحیح العلم فی تقبیح الفلم، ٩/ ٣٩٦، ط: رشیدیہ)

ایک اور جگہ "سنسکرت" زبان سیکھنے کے متعلق فرمایا:

"اس کی تعلیم وتعلم کا فی نفسہ جائز ہونا تو بوجہ عدمِ مانع جواز کے ظاہر ہے۔ اور قاعدہ مقررہ ہے کہ جو امر  جائز کسی امرِ مستحسن یا واجب کا مقدمہ وموقوف علیہ ہو وہ بھی مستحسن یا واجب ہوتا ہے ... البتہ بعض روایات ایسے امور میں بعض ایسے عوارض خارجیہ کی وجہ سے جو کہ معلم یا صحبتِ ناجنس یا فسادِ نیت وسوء استعمال  یا احتمال افتنان یا اشتغال بما لا یعنی کی جہت سے ہوں، قبح لغیرہ محتمل ہوسکتا ہے۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، باب تعلیم وتعلم اور کتب ومدارس وغیرہ کے احکام، ٨/ ٥٠٢، ط: رشیدیۃ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي السراج ودلت المسألة أن الملاهي كلها حرام ويدخل عليهم بلا إذنهم لإنكار المنكر قال ابن مسعود صوت اللهو والغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: وفي البزازية استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله - عليه الصلاة والسلام - «استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع لما روي «أنه - عليه الصلاة والسلام - أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه».

وقال عليه في الرد:  (قوله ودلت المسألة إلخ) لأن محمدا أطلق اسم اللعب والغناء فاللعب وهو اللهو حرام بالنص قال - عليه الصلاة والسلام - «لهو المؤمن باطل إلا في ثلاث: تأديبه فرسه» وفي رواية «ملاعبته بفرسه ورميه عن قوسه وملاعبته مع أهله» كفاية وكذا قول الإمام ابتليت دليل على أنه حرام إتقاني، وفيه كلام لابن الكمال فيه فراجعه متأملا ... (قوله قال ابن مسعود إلخ) رواه في السنن مرفوعا إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - بلفظ: «إن الغناء ينبت النفاق في القلب» " كما في غاية البيان وقيل إن تغنى ليستفيد نظم القوافي ويصير فصيح اللسان لا بأس به، وقيل: إن تغنى وحده لنفسه لدفع الوحشة لا بأس به وبه أخذ السرخسي وذكر شيخ الإسلام أن كل ذلك مكروه عند علمائنا. واحتج بقوله تعالى - {ومن الناس من يشتري لهو الحديث}- الآية جاء في التفسير: أن المراد الغناء وحمل ما وقع من الصحابة على إنشاء الشعر المباح الذي فيه الحكم والمواعظ، فإن لفظ الغناء كما يطلق على المعروف يطلق على غيره كما في الحديث «من لم يتغن بالقرآن فليس منا» وتمامه في النهاية وغيرها.

[تنبيه]: عرف القهستاني الغناء بأنه ترديد الصوت بالألحان في الشعر مع انضمام التصفيق المناسب لها قال فإن فقد قيد من هذه الثلاثة لم يتحقق الغناء اهـ قال في الدر المنتقى: وقد تعقب بأن تعريفه هكذا لم يعرف في كتبنا فتدبر اهـ. أقول: وفي شهادات فتح القدير بعد كلام عرفنا من هذا أن التغني المحرم ما كان في اللفظ ما لا يحل كصفة الذكور والمرأة المعينة الحية ووصف الخمر المهيج إليها والحانات والهجاء لمسلم أو ذمي إذا أراد المتكلم هجاءه لا إذا أراد إنشاده للاستشهاد به أو ليعلم فصاحته وبلاغته، وكان فيه وصف امرأة ليست كذلك أو الزهريات المتضمنة وصف الرياحين والأزهار والمياه فلا وجه لمنعه على هذا، نعم إذا قيل ذلك على الملاهي امتنع وإن كان مواعظ وحكما للآلات نفسها لا لذلك التغني اهـ ملخصا وتمامه فيه فراجعه ... (قوله ينبت النفاق) أي العملي (قوله كضرب قصب) الذي رأيته في البزازية قضيب بالضاد المعجمة والمثناة بعدها (قوله فسق) أي خروج عن الطاعة ولا يخفى أن في الجلوس عليها استماعا لها والاستماع معصية فهما معصيتان (قوله فصرف الجوارح إلخ) ساقه تعليلا لبيان صحة إطلاق الكفر على كفران النعمة ط (قوله فالواجب) تفريع على قوله استماع الملاهي معصية ط."

(كتاب الحظر والإباحة، ٦/ ٣٤٨، ط: سعيد)

(2) مسجد کی جماعت نکل جانے کی صورت میں اگر کوئی شخص گھر یا کہیں اور جماعت کرائے، تو اُسے تکبیر  ِاولی کا ثواب مل جائے گا، تکبیر ِاولی کی فضیلت مسجد کی جماعت کے ساتھ خاص نہیں ہے، تاہم مسجد کے علاوہ کی جماعت کا وہ ثواب اور فضیلت نہیں جو مسجد کی جماعت کا ہے، اس لیےشرعی عذر کے بغیرمسجد کی جماعت چھوڑ کر مستقل گھر میں نماز کی عادت نہیں بنانی چاہیے اگرچہ گھر میں باجماعت نماز کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے، جناب نبی کریم ﷺ نے مسجد کی جماعت چھوڑ کر گھر پر نماز پڑھنے والوں پر شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے ۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ميں هے: 

"وعن أنس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى لله أربعين يوما في جماعة يدرك التكبيرة الأولى، كتب له براءتان: براءة من النار، وبراءة من النفاق. رواه الترمذي.

(وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى لله) أي: خالصا (أربعين يوما) أي: وليلة (في جماعة) متعلق بصلى (يدرك) حال (التكبيرة الأولى) ظاهرها التكبيرة التحريمية مع الإمام، فاحتمل أن تشمل التكبيرة التحريمية للمقتدي عند لحوق الركوع، فيكون المراد إدراك الصلاة بكمالها مع الجماعة، وهو يتم بإدراك الركعة الأولى."

(كتاب الصلاة، باب ما على المأموم من المتابعة، الفصل الثاني، ٣/ ٨٨٠، ط: دارالفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله ولو ‌فاتته ندب طلبها) فلا يجب عليه الطلب في المساجد بلا خلاف بين أصحابنا، بل إن أتى مسجدا للجماعة آخر فحسن، وإن صلى في مسجد حيه منفردا فحسن. وذكر القدوري: يجمع بأهله ويصلي بهم، يعني وينال ثواب الجماعة كذا في الفتح."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ١/ ٥٥٥، ط: سعيد)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"وفي السراج الوهاج لو حلف لا يصلي بجماعة وأم صبيا يعقل حنث في يمينه، ولا فرق في ذلك بين أن يكون في المسجد أو بيته حتى لو صلى في بيته بزوجته أو جاريته أو ولده فقد أتى بفضيلة الجماعة.

وفي منحة الخالق:

"(قوله: حتى لو صلى في بيته بزوجته إلخ) سيأتي خلافه عن الحلواني من أنه لا ينال الثواب ويكون بدعة ومكروها لكن قال في القنية اختلف العلماء في إقامتها في البيت والأصح أنها كإقامتها في المسجد إلا في الفضلية وهو ظاهر مذهب الشافعي - رحمه الله تعالى -. اهـ.

قلت: ويظهر لي أن ما سيأتي عن الحلواني مبني على ما مر عنه في الأذان من وجوب الإجابة بالقدم وتقدم أن الظاهر خلافه فلذا صححوا خلاف ما قاله هنا أيضا."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ١/ ٣٦٦، ط: دارالكتاب الإسلامي)

فتاویٰ  شامی میں ہے:

"قال في القنية: واختلف العلماء في إقامتها في البيت والأصح أنها كإقامتها في المسجد إلا في الأفضلية. اهـ"

 (كتاب الصلاة، باب الإمامة، ١/ ٥٥٤، ط: سعيد)

فتاویٰ  عالمگیریہ  میں ہے:

"وإن صلى ‌بجماعة ‌في ‌البيت اختلف فيه المشايخ والصحيح أن للجماعة في البيت فضيلة وللجماعة في المسجد فضيلة أخرى فإذا صلى في البيت بجماعة فقد حاز فضيلة أدائها بالجماعة وترك الفضيلة الأخرى، هكذا قاله القاضي الإمام أبو علي النسفي، والصحيح أن أداءها بالجماعة في المسجد أفضل وكذلك في المكتوبات."

(كتاب الصلاة، الباب التاسع في النوافل،فصل في التراويح، ١/ ١١٦، ط: رشيدية)

(3) قرض  کے بارے میں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ جتنا قرض لیاجائے اتنی ہی مقدار قرض دار پر واپس کرنالازم ہے، چناں چہ شریعت مطہرہ کا مسلمہ اصول ہے کہ’’الدیون تقضیٰ بأمثالها‘‘ یعنی قرضوں کی واپسی ان قرضوں کے مثل (برابر) سے ہی ہوگی۔ اسی لیے اگر قرض کی واپسی میں اضافہ کی شرط لگائی جائے تو وہ عین سود ہوگا، البتہ اگر  کسی پیشگی معاہدہ و شرط کے بغیر قرض دار خود سے قرض کی واپسی کے وقت قرض خواہ کا احسان مانتے ہوئے کچھ زیادہ ادائیگی کردے،  اور اضافے کے ساتھ ادائیگی کا عرف نہ ہو تو یہ اس کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا اور اس پر اُسے اجر و ثواب بھی ملے گا؛ کیوں کہ حدیث میں بھی اس بات کی ترغیب دی گئی ہے، چناں چہ آپﷺ نے فرمایا: "تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرض کی ادائیگی زیادہ اچھے طریقہ سے کرنے والا ہو"۔   لہٰذا جس طرح وقت پر قرضہ ادا کرنا اس میں شامل ہے، اسی طرح  بلا شرط بطورِ  تبرع کچھ بڑھا کر ادا کرنا بھی اچھے طریقہ سے ادا کرنے میں شامل ہے،  لیکن یہ واضح رہے کہ قرض خواہ صراحۃً یا اشارۃً یا کنایۃً زیادتی کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا أبو الطاهر أحمد بن عمرو بن سرح. أخبرنا ابن وهب عن مالك بن أنس، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، عن أبي رافع: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم استسلف من رجل بكرا. فقدمت عليه إبل من إيل الصدقة. فأمر أبا رافع أن يقضي الرجل بكره. فرجع إليه أبو رافع فقال: لم أجد فيها إلا خيارا رباعيا. فقال (أعطه إياه. ‌إن ‌خيار ‌الناس ‌أحسنهم قضاء)."

(كتاب المساقاة، باب من استلف شيئا فقضى خيرا منه، ٣/ ٢٢٤، ط: دارإحياء التراث العربي)

 فتاویٰ  شامی میں ہے:

"وفي الخلاصة القرض بالشرط حرام والشرط لغو بأن يقرض على أن يكتب به إلى بلد كذا ليوفي دينه.

وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام."

(باب المرابحة والتولية، فصل فی القرض: ٥/ ١٦٦، ط: سعید)

وفيه أيضاً:

"(قوله ‌كل ‌قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به."

(كتاب البيوع، فصل في القرض، مطلب كل قرض جر نفعا فهو حرام، ٥/ ١٦٦، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100944

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں