بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عرب ریاستوں میں کفیل کا کفالت کے بدلے رقم کا مطالبہ کرنا ناجائز ہے


سوال

 زید ایک عرب ریاست دبئی  میں بزنس کرنا چاہتا ہے،  اس ریاست کا قانون ہے کہ غیرمقامی شخص تب بزنس کر سکتا ہے کہ جب کوئی مقامی شخص اس کا کفیل ہو،  اور بزنس میں بھی مقامی آدمی  50فیصد شراکت داری کرے، اب ایک مقامی آدمی نے کہا ہے  کہ وہ ضروری کاغذات میں شامل ہو جائے گا، لیکن وہ زید کے ساتھ حقیقی طور پر شراکت داری نہیں کرے گا،  بلکہ محض قانونی کاروائی کے لیے صرف  کاغذات کی حد تک  شریک ہوگا،  اور اپنی اس کفالت کے بدلے سالانہ 15ہزار اجرت لے گا ،از روئے شرع دلائل کے ساتھ راہ نمائی فرمائیں کہ ایسے عقد کا حکم کیا ہے؟ کیا  اس مقامی شخص کو اس شرط پر ساتھ ملایا جاسکتا ہے؟ اور اس کو کفالت کے بدلے جوسالانہ رقم دی جائے گی ،اس حوالے سے شرعی طور پر کیا حکم ہے؟ کہ وہ میں دے سکتا ہوں یا نہیں دے سکتا ؟

جواب

واضح رہے کہ کفالت (کفیل بننا) ایک ایسا عقد ہے جو بلا معاوضہ،  تبرع کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، کفالت کا عوض لینا جائز نہیں ہے، چنانچہ کسی آدمی کی کفالت لے کر اس سے ماہانہ یا سالانہ پیسے وصول کرنا یہ  رشوت  هے ناجائز ہے اور رشوت کا حکم یہ ہے کہ رشوت لینے والا تو گناہ گار ہوتا ہے، اس کے ساتھ رشوت دینے والا  اگر انتہائی شدید مجبوری کے علاوہ رشوت دے تو وہ بھی اس گناہ میں شریک ہوتا ہے  ، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مقامی شخص کا زید سے اپنی کفالت کے بدلے رقم کا مطالبہ کرنا ناجائز ہے، اور زید کے لیے بھی  اسے یہ رقم دینا ناجائز ہے،مزید یہ کہ یہ حق  مجرد ہے اور حق مجرد کے عوض اجرت لینا جائز نہیں ہے،  تاہم اگر ایسی شدید مجبوری ہو کہ معاشی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے متبادل کوئی انتظام نہ ہو ، اور مذکورہ مقامی شخص کے علاوہ کوئی اور بلا معاوضہ کفالت نہ کر رہا ہو تو اس صورت میں زید دینے کی صورت میں گناہ گار نہیں ہوگا، لیکن لینے والا گناہ گار ہوگا۔

المبسوط للسرخسیؒ میں ہے:

"وجه قولهما: إن ‌الكفالة ‌تبرع بدليل أنه لا يصح ممن ليس من أهل التبرع، كالمأذون والمكاتب."

(كتاب الشركة، باب بضاعة المفاوض، ج:11، ص:196، ط:دار المعرفة)

الفقہ الاسلامی و ادلتہ للزحیلی  میں ہے:

"‌‌رابعا ـ كفالات الإقامة والسفر: عرفنا أن الكفالة عقد تبرع وطاعة يثاب عليها الكفيل؛ لأنها تعاون على الخير، وللكفيل أن يرجع على المكفول عنه بما تحمله من مسؤولية الضمان إذا دفعه لصالح الجهة المكفول لها. والكفالة مشروعة سواء كانت كفالة بالمال (أو الدين) أو كفالة بالنفس.

ومن المعروف أن دول الخليج تشترط تقديم كفيل بالنفس والمال على العمال وأرباب العمل الذين يمارسون أعمالهم فيها، ويلتزم الكفيل من أجل منح هؤلاء الإقامة في هذه البلاد التي يعملون فيها تقديم الأجنبي للسلطات المختصة لترحيله عند انتهاء إقامته أو إلغائها، أو صدور قرار بإبعاده، مع سداده نفقات الترحيل. كما يلتزم بجميع الديون والالتزامات التي تترتب في ذمة مكفوله الأجنبي خلال مدة إقامته في البلاد، إذا لم يف بها، ولم تكن له أموال ظاهرة يمكن التنفيذ عليها.

كما توجب قوانين بعض الدول تقديم كفيل بالنفس والمال عند السماح لبعض رعاياها بالسفر للخارج من أجل العمل أو الدراسة أو تأجيل خدمة العلم (الجندية) ونحوها، ويلتزم الكفيل بدفع مبلغ من المال إذا لم يقدم المكفول بنفسه للدولة حال مطالبة السلطات الحكومية بإحضاره .

وحكم هذين النوعين من الكفالة: كفالة الإقامة والسفر للخارج: أن الكفالة بالرغم من كونها عقد تبرع، يجوز بموجبها للكفيل أخذ مقابل عمله وجهده فقط، وله الرجوع بما يغرم، وما زاد عن هذا فهو سحت حرام (1)، بل هو ظلم وغبن فاحش إذا تجاوز الكفيل هذه الحدود المشروعة، بأن طالب المكفول بتقديم نسبة من أرباح العمل، أو بأقساط شهرية دورية، دون أن يقدم الكفيل لمكفوله أي عمل، أو يتحمل أي جهد، أو يؤدي عنه أي نفقة.

وقد نصت المادة (1098) من قانون المعاملات المدنية في دولة الإمارات، المستمد من الفقه الإسلامي على ما يلي:

«لا يجوز للكفيل أن يأخذ عوضا عن كفالته، فإن أخذ عوضا عنها وجب عليه رده لصاحبه، وتسقط عنه الكفالة إن أخذه من الدائن أو من المدين أو من أجنبي بعلم من الدائن، فإن أخذه بدون علم منه لزمته الكفالة مع رد العوض».

وجاء في المذكرة الإيضاحية لهذه المادة: وإنما منع أخذ الضامن عوضا عن ضمانه؛ لأن الدين إن دفعه المدين، كان أخذ الضامن للعوض من أكل أموال الناس بالباطل. وإن دفعه الضامن ثم رجع به على المدين، كان دفعه للدين وأخذه من المدين سلفا للمدين بزيادة، وهي العوض الذي أخذه، وهذا ممنوع.

والخلاصة: يجوز أخذ الأجر على كفالة الإقامة أو السفر إذا كانت مقابل عمل وجهد فقط أو بسبب غرم الكفيل، وما زاد على ذلك فهو مال حرام."

(القسم الثالث: العقود، الفصل العاشر: الكفالة، تطبيقات علي الكفالات المعاصرة، ج:6، ص:4185-4186، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100486

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں