میرا قسطوں کا کاروبار ہے اگر کوئی کسٹمر مجھ سے 12 مہینے کا حساب كتاب كركے قسطوں میں موبائل یا کوئی بھی چیز خریدتا ہے، اور وقت سے قبل دو يا پانچ مہینے کے بعد وہ مکمل رقم ادا کرتا ہے جو اس کو 12 مہینے میں ادا کرنی تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر وہ کہے کہ مجھے ڈسکاؤنٹ دیا جائے تو یہ ڈسکاؤنٹ دینا جائز ہے یا نہیں؟
بصورت مسئولہ قسطوں پر خریدی ہوئی چیز کی قیمت کو وقت مقرر سے قبل ادا کرنے کی صورت میں خریدار کا مقررہ قیمت میں ڈسکاؤنٹ کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، بلکہ خریدوفروخت کی مجلس میں جس قیمت کی ادائیگی پر معاملہ طے ہوا ہو ، وہی ادا کرنا ضروری ہے،خواہ وہ رقم وقت سے قبل دو چار ماه ميں ادا كردی جائے، یااقساط کی صورت میں مقررہ وقت باره مہينوں ميں ادا کی جائے۔ البتہ اگر فروخت کنندہ (سائل) وقت سے پہلے رقم ادا کرنے پر غیرمشروط طورپر ، اپنی مرضی وخوشی سے خریدار کے مطالبہ کے بغیر اپنی طرف سے ڈسکاؤنٹ کچھ رقم کم کردے تو یہ جائز ہوگا، تاہم ایسا کرنا اس پر لازم اور ضروری نہیں، اور نہ ہی خریدار کو اِس کے مطالبہ کا حق حاصل ہے۔
ہدایہ شرح بدایہ میں ہے:
"قال:"ولو كانت له ألف مؤجلة فصالحه على خمسمائة حالة لم يجز" لأن المعجل خير من المؤجل وهو غير مستحق بالعقد فيكون بإزاء ما حطه عنه، وذلك اعتياض عن الأجل وهو حرام."
(كتاب الصلح، ج:3، ص:195، ط:دارإحياء التراث العربي-بيروت)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144604101329
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن