بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عقيقہ كا جانور كتنا بڑا ہونا چاہیے؟


سوال

عقيقہ كا جانور كتنا بڑا ہونا چاہیے؟

جواب

عقیقہ میں صرف اسی جانور کو ذبح کیا جاسکتا ہے جو قربانی کے قابل ہو۔ بکرا، بکری، دنبہ، بھیڑ پورے ایک سال یا اس سے بڑے ہوں، گائے، بیل، بھینس، بھینسا پورے دو سال یا اس سے بڑے ہوں اور اونٹ، اونٹنی پورے پانچ سال یا اس سے بڑے ہوں۔ البتہ کسی دنبہ یا بھیڑ کی عمر ایک سال سے کم ہو لیکن چھ ماہ سے زائد ہو اور وہ جسامت میں پورے سال والے جانوروں کی طرح نظر آتا ہو تو اس کی قربانی اور عقیقہ بھی درست ہے۔ واضح رہے کہ بڑے جانور جیسے گائے، اونٹ وغیرہ میں سات حصے قربانی یا عقیقہ کے کرسکتے ہیں۔ اور چھوٹے جانور جیسے بکرا، دنبہ وغیرہ میں صرف ایک ہی حصہ قربانی یا عقیقہ کرسکتے ہیں۔

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:6، ص:336، ط: دار الفكر-بيروت):

’’يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضة أو ذهبا ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعا على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئا أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنّها الشافعي وأحمد سنة مؤكدة شاتان عن الغلام وشاة عن الجارية غرر الأفكار ملخصًا، والله تعالى أعلم.‘‘

الفتاوى الهندية (ج:5، ص:297، ط: دار الفكر):

’’(وأما سنه) فلايجوز شيء مما ذكرنا من الإبل والبقر والغنم عن الأضحية إلا الثني من كل جنس وإلا الجذع من الضأن خاصة إذا كان عظيما، وأما معاني هذه الأسماء فقد ذكر القدوري أن الفقهاء قالوا: الجذع من الغنم ابن ستة أشهر والثني ابن سنة والجذع من البقر ابن سنة والثني منه ابن سنتين والجذع من الإبل ابن أربع سنين والثني ابن خمس، وتقدير هذه الأسنان بما قلنا يمنع النقصان، ولايمنع الزيادة، حتى لو ضحى بأقل من ذلك شيئا لا يجوز، ولو ضحى بأكثر من ذلك شيئًا يجوز ويكون أفضل، ولايجوز في الأضحية حمل ولا جدي ولا عجول ولا فصيل.‘‘

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144203201244

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں