بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عقیقہ تاخیر سے کرنے کا حکم


سوال

 میرے چار بچے ہیں، جن کی عمریں بالترتیب 14 سال ،12،سال ،10 سال اور 3 سال ہیں، ان کی پیدائش کے وقت معاشی مسائل کی بنا پر اپنے بچوں کے عقیقے نہیں کرسکا، اب اللہ تعالیٰ نے اپنے خزانہ سے رزق کی فراخی دی ہے ،تو کیا اب میں ان کے عقیقے کرسکتا ہوں ؟ 

جواب

اگر آپ وسعت نہ ہونے کی وجہ سے اب تک بچوں کے عقیقے نہیں کر سکے ہیں تو کوئی حرج نہیں کیونکہ عقیقہ لازم اور ضروری نہیں ہوتا، مستحب ہے۔ سائل اب اگر بچوں کے عقیقے کرنا چاہتا ہے تو کرسکتا ہے۔

فيض البارى شرح صحيح البخارى میں ہے:

"ثم إن الترمذي أجاز بها إلى يوم إحدى وعشرين. قلتُ: بل يجوز إلى أن يموت، لما رأيت في بعض الروايات أنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلّم عقّ عن نفسه بنفسه."

(كتاب العقيقة، باب العتيرة، ج: 5، ص: 88، ط: دار الكتب العلمية)

المستدرک  میں ہے: 

’’عن عطاء، عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزوراً، فقالت عائشة رضي الله عنها: «لا بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة تقطع جدولاً، ولايكسر لها عظم فيأكل ويطعم ويتصدق، وليكن ذاك يوم السابع، فإن لم يكن ففي أربعة عشر، فإن لم يكن ففي إحدى وعشرين». هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ".

 (المستدرك على الصحیحین للحاكم، كتاب الذبائح،ج:4، ص: 266، رقم: 7595، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100838

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں