بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عقیقہ کی دعوت میں تحفہ لینے کا حکم


سوال

عقیقہ کی دعوت پر جو تحائف   ملتے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ آیا یہ تحائف وصول کرنا جائز ہے؟ اور عقیقہ کے گوشت کے معاوضے میں تو شمار نہیں ہوں گے؟

جواب

    عقیقہ کرنا سنت (مستحب) ہے، البتہ اس کی دعوت کرنا مباح ہے۔ اس موقع پر عمومًا جو تحائف دینے کی رسم ہوتی ہے  وہ غریب  رشتہ داروں پر بوجھ ہوتاہے، ایسی رسوم کو ختم کرنا چاہیے، البتہ اس موقع پر کوئی اپنی خوشی سے تحفہ دینا چاہے  تو  تحفہ  لینا جائز ہے، یہ گوشت کے  بدلے یا مہمانی کے بدلے شمار نہیں  ہوتا، نیز تحائف کی ملکیت کے بارے میں عرف ورواج کا اعتبار ہوگا۔ اگر عرف یہ ہے کہ  یہ تحفے تحائف ماں باپ کو دینا مقصود ہوتے ہیں، صرف  ظاہراً  بچوں کے ہاتھ میں دیے جاتے ہوں، جیسا کہ عام طور پر عقیقہ وغیرہ کی تقریب میں ہوتا ہے تو ان چیزوں کے مالک والدین ہی ہوں گے، وہ اس میں جو چاہیں تصرف کرسکیں گے، پھر اس میں یہ تفصیل ہے کہ  اگر وہ چیزیں  والدہ کے رشتہ داروں نے دی ہیں تو والدہ ان کی مالک ہے، اور اگروالد کے رشتہ داروں نے دی ہیں تو  اس کا مالک والد ہے۔ اگر عرف یہ ہے کہ اس طرح کی تقریبات میں وہ چیزیں بچے ہی کو دی جاتی ہیں  یا ایسی چیز دی گئی جو بچے کے ہی استعمال میں آسکتی ہے  تو پھر اس کا مالک بچہ ہی ہوگا اور اسی کی ضروریات میں اس کو خرچ  کرنا ہوگا۔

الفتاوی الهندیة (362/5):

’’ وَضِيَافَةِ النَّاسِ وَحَلْقِ شَعْرِهِ مُبَاحَةٌ لَا سُنَّةٌ وَلَا وَاجِبَةٌ كَذَا فِي الْوَجِيزِ لِلْكَرْدَرِيِّ."

 فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144202201418

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں