بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عقیقہ کے موقع پر بہن یا بیٹی کو کپڑے وغیرہ تحفہ میں دینا


سوال

عقیقہ پر اپنی بہن یا بیٹی کو کپڑے وغیرہ دینا کیسا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں خوشی اوراظہارمحبت کےلیےعقیقہ کے موقع پربہن یا بیٹی کو کپڑے وغیرہ تحفہ میں دینےمیں حرج نہیں ہے ؛ لیکن آج کل عقیقے کے موقع پر تحائف کا دینا ایک رسم بن گئی ہے، بعض لوگ اس کو ضروری اور لازم سمجھتے ہیں اور بے جا تکلفات میں پڑتے ہیں، اسراف اور فضول خرچی کرتے ہیں، یہ چیزیں قابل ترک ہیں، ایسی رسومات سے بچنا چاہیے ۔

الفتاوی الخانیة علی ہامش الہندیة:

"رجل اتخذ ولیمة للختان فأہدی الناس ہدایا وضعوا بین یدیه، قالوا إن کانت الهدیة ممایصلح للصبیان مثل ثیاب الصبیان أو یکون شیئا یستعمله الصبیان فهی للصبی؛ لأن مثله یکون هبة للصبی عادة،وإن کانت الهدیة دراهم أو دنانیر أوغیر ذلک یرجع إلی المهدی فإن قال المهدی: هی هبة للصغیر کانت للصغیر،وإن تعذر الرجوع إلیه ینظر إن کان المهدی من معارف الأب أوأقاربه فهی للأب وإن کان من قرابة الأم أو من معارفها فہی للأم."

(کتاب الهبة،فصل فیما یکون هبة من الألفاظ وما لایکون:۳/ ۲۶۴،ط: رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويباح لوالديه أن يأكلا من مأكول وهب له، وقيل: لا، انتهى، فأفاد أن غير المأكول لايباح لهما إلا لحاجة وضعوا هدايا الختان بين يدي الصبي فما يصلح له كثياب الصبيان فالهدية له، وإلا فإن المهدي من أقرباء الأب أو معارفه فللأب أو من معارف الأم فللأم، قال: هذا لصبي أو لا، ولو قال: أهديت للأب أو للأم فالقول له، وكذا زفاف البنت، خلاصة. وفيها: اتخذ لولده أو لتلميذه ثيابًا ثم أراد دفعها لغيره ليس له ذلك ما لم يبين وقت الاتخاذ أنها عارية، وفي المبتغى: ثياب البدن يملكها بلبسها بخلاف نحو ملحفة ووسادة."

(ردالمحتار علی الدر المختار،کتاب الھبۃ،5/ 696،  ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101353

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں