بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عقیقہ کب سنت ہے اور قربانی کے جانور میں عقیقہ جائز ہے؟


سوال

عقیقے کے متعلق وضاحت چاہیےکون سے دن سنت ہے اور کب تک کیا جا سکتا ہے ؟ 

قربانی کے جانور میں عقیقے کے لیے حصہ رکھا جاسکتا ہے؟

جواب

1-بچے کی پیدائش پر شکرانہ کے طور پر جو قربانی کی جاتی ہے  اسے ’’عقیقہ‘‘  کہتے ہیں،عقیقہ کرنا مستحب ہے، اور  عقیقہ کا مسنون وقت یہ ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرے، اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکے تو چودھویں (14) دن، ورنہ اکیسویں (21) دن کرے، اس کے بعد عقیقہ کرنا مباح ہے، اگر کرلے تو ادا ہوجاتا ہے، تاہم جب بھی عقیقہ کرے بہتر یہ ہے کہ پیدائش کے دن  کے حساب سے ساتویں دن کرے۔

عقیقہ کے جانور کے لیے وہی شرائط ہیں جو قربانی کے جانور کی شرائط ہیں، بکرا/بکری، بھیڑ، دنبہ، گائے ، بیل اور اونٹ سب میں عقیقہ ہوسکتا ہے، اور بڑے جانور  مثلاً گائے بیل اور اونٹ میں جس طرح قربانی کے سات حصے ہوتے ہیں اسی طرح سات عقیقے بھی ہوسکتے ہیں۔ لہذا اگر لڑکا ہو تو دو بکرے یا بکریاں یا دو بھیڑ، اور لڑکی ہو تو ایک بکری یا بھیڑ ذبح کرے یا بڑے جانور ( گائے، بیل، اونٹ) میں لڑکے کے لیے دو حصے اور لڑکی کے لیے ایک حصہ رکھ لیا جائے۔

2-قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ رکھا جا سکتا ہے۔

المستدرك  میں ہے: 

’’عن عطاء، عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزوراً، فقالت عائشة رضي الله عنها: لا بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة تقطع جدولاً، ولايكسر لها عظم فيأكل ويطعم ويتصدق، وليكن ذاك يوم السابع، فإن لم يكن ففي أربعة عشر، فإن لم يكن ففي إحدى وعشرين. هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ". 

( المستدرک علی الصحیحین للحاکم (4/ 266) رقم الحدیث: 7595،  کتاب الذبائح، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

إعلاء السنن میں ہے:

’’ أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع‘‘.

 (17/117، باب العقیقہ، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة)

فتاوی شامی میں ہے:

’’يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً، ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئاً أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا، واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنةً مؤكدةً شاتان عن الغلام، وشاةً عن الجارية، غرر الأفكار ملخصاً، والله تعالى أعلم‘‘.(6/ 336، کتاب الأضحیة، ط: سعید)

وفیه أیضاً: 

’’وكذا لو أراد بعضهم العقيقة عن ولد قد ولد له من قبل؛ لأن ذلك جهة التقرب بالشكر على نعمة الولد، ذكره محمد، ولم يذكر الوليمة. وينبغي أن تجوز؛ لأنها تقام شكرًا لله تعالى على نعمة النكاح، ووردت بها السنة، فإذا قصد بها الشكر أو إقامة السنة فقد أراد القربة‘‘. (6/ 326، کتاب الأضحیة، ط: سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200489

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں