بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عقیقہ کرنے کے بعد بچے کا نام تبدیل کرنے کا حکم


سوال

عقیقہ ہو جانے کے بعد لڑکے کا نام بدلنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے بچوں کے لیے کسی اچھے نام کا انتخاب کرنا (یعنی کوئی مناسب معنی والا نام رکھنا) والد کی ذمہ داری ہے،اگر کسی وجہ سے بچے کا ایسا نام رکھ دیا گیاہو، جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہو (یعنی نامناسب معنی والا نام ہو) تو اسے بدل دینا چاہیے؛  نیز نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپﷺ برے ناموں کو بدل کر اچھا نام رکھا کرتےتھے۔

بصورتِ مسئولہ اگر عقیقہ کرنے سے پہلے بچے کا نام ایسا رکھا گیا ہے جس کا معنی نامناسب ہے تو اسے بدل کر کوئی مناسب معنی والا نام یا انبیاءکرام، صحابہ کرام یا صلحاء کے ناموں سے میں سے کسی نام کا انتخاب کیا جائےتو درست بھی ہے اور باعث برکت بھی ہے، اور دوبارہ عقیقہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر پہلے نام کا معنی مناسب ہو تو اسے بدلنے کی ضرورت نہیں ہے، تاہم اس صورت میں بھی دوبارہ عقیقہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔

ترمذی شریف میں ہے:

عن عائشة: أن النبي صلی الله علیه وسلم كان یغیر الإسم القبیح.

(ابواب الأداب، باب ماجاء فی تغییر الأسماء، ج:2، ص:11، ط:قديمى كتب خانه)

فیض القدیر شرح الجامع الصغیر میں ہے:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :سموا بأسماء الأنبياء.

(رقم الحدیث:4717، ط:المكتبة التجارية، مصر)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144201200805

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں