بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عاقلہ بالغہ لڑکی والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح کرسکتی ہے؟


سوال

میرا ایک دوست ہے اس کی شادی میں  دس  دن بچے ہیں،  سب کی رضا مندی سے یہ شادی فکس ہوئی،  اب اچانک لڑکی کی والدہ کا فون آتا  ہے اور وہ کہتی ہے کہ  مجھے رشتہ نہیں رکھنا،  جب ان سے بات کی گئی تو جو اب میں یہ  کہتی ہے کہ  مجھے لڑکا اسٹبلش نہیں لگتا،  جب کہ  لڑکے کے پاس سب کچھ موجود ہے گھر ،کار،  جاب۔  بات ہونے کے بعد جب لڑکی کو بلوا کر پوچھا گیا کہ  تم کیا چاہتی ہو تو اس نے کہا میں  یہیں شادی کرنا چاہتی ہوں،  اب لڑائی جھگڑے کے بعد دوبارہ شادی اپنی تاریخ پر ہونے کا فیصلہ ہو گیا لیکن لڑکی کی والدہ اس کو ٹارچر کر رہی ہے اور برا بھلا کہ رہی ہے  اور وہ چاہ رہی ہے کہ  شادی نہ  ہو، ایسی صورت میں لڑکی کے لیے اسلام میں کیاحکم ہے؟  اپنے والدین کے خلاف جا کر شادی کرنا درست ہے  کہ نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نکاح کے معاملہ میں عاقلہ بالغہ لڑکی کے ولی کو اس بات کا حکم دیتی ہے کہ اس کانکاح اس کی مرضی کے بغیر نہ کرے، بلکہ اس کے نکاح کے لیےاس سے اجازت اور دلی رضامندی حاصل کرے،دلی رضامندی حاصل کیے بغیر ولی کا زبردستی نکاح کرانا درست نہیں ہے۔نیز اگر عاقلہ بالغہ لڑکی اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر اپنا نکاح خود کرے یا  والدین کے علاوہ کسی اور کو ولی مقرر کرکے نکاح کرےتو شرعاً ایسا نکاح منعقد ہوجاتا ہے، اگرچہ والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنا  پسندیدہ نہیں ہے۔ 

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب شادی کی تاریخ مقرر کردی گئی تھی اور لڑکی خود بھی اس جگہ شادی کرنے پر راضی ہے تو والدہ کا اس کو ٹارچر کرنا اور برا بھلا کہنا درست نہیں اوراگر مذکورہ لڑکی اپنے ولی کی اجازت و رضامندی کے بغیر اپنا نکاح خود کرے گی تو  ناپسندیدہ ہونے کے باوجود نکاح منعقد ہوجائے گاتاہم بہتر یہی ہے کہ لڑکی اپنی والدہ کو راضی کرکے ہی نکاح کرے۔ 

’’بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع‘‘ میں ہے:

" الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلا بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض."

(کتاب النکاح، فصل ولاية الندب والاستحباب فی النکاح، 2/ 247،ط: سعید )

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100813

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں