بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عاقلہ بالغہ لڑکی کا زبردستی نکاح کرانا


سوال

میری بھتیجی جس کی عمر سولہ سال ہے کا نکاح اس کے بھائی نے زبردستی ایک ایسے شخص کے ساتھ کیا ہے جو کہ نشے کا عادی  ہے اور اس کی عمر بھی تقریباً چالیس سال ہے اور پہلے سے دو بیویاں اس کے نکاح میں ہیں، میری بھتیجی کسی صورت اس نکاح پر راضی نہیں تھی ، بچی کو مارپیٹ کرکے زبردستی نکاح نامے پر دستخط لیا گیا ہے، اس نے دستخط تو کردیا ہے لیکن وہ اس پر آمادہ نہیں ہے، آپ سے پوچھنا ہے کہ جب بچی راضی نہ ہو زبردستی دستخط لینے سے نکاح ہوجاتا ہے؟ کیا یہ غیر کفو میں نکاح نہیں ہے؟ نیز بچی کا والد  اس نکاح پر راضی ہے اور اپنے بیٹے کے اس کام پر اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرآپ کی بھتیجی جوکہ عاقلہ بالغہ ہے، اس نکاح پر راضی نہیں تھی لیکن بھائی کے زبردستی کرنے اور مارپیٹ کا نشانہ بنانے کی وجہ سے  نکاح نامے پر  دستخط کرتے ہوئے اگر زبان سے قبول نہیں کیا تھا تو یہ نکاح  اس کی رضامندی پر موقوف ہے اگر وہ راضی ہوجائے تو نکاح ہوگا  ورنہ نہیں ہوگا اور اگر دستخط کرنے کے ساتھ ساتھ دلی رضامندی نہ ہونے کے باوجود زبان سے  قبول کرلیا تھا تو یہ نکاح ہوچکا ہے۔  

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لايجوز ‌نكاح ‌أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكرا كانت أو ثيبا فإن فعل ذلك فالنكاح موقوف على إجازتها فإن أجازته؛ جاز، و إن ردته بطل، كذا في السراج الوهاج."

(كتاب النكاح، الباب الرابع في الأولياء،1/ 287، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

’’ (ويقع طلاق ‌كل ‌زوج ‌بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران (ولو عبدا أو مكرها) فإن طلاقه صحيح لا إقراره بالطلاق‘‘ 

’’ (قوله : لا إقراره بالطلاق) قيد بالطلاق لأن الكلام فيه وإلا فإقرار المكره بغيره لا يصح أيضا كما لو أقر بعتق أو نكاح أو رجعة أو فيء أو عفو عن دم عمد أو بعبده أنه ابنه أو جاريته أنها أم ولده كما نص عليه الحاكم في الكافي. هذا، وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا، كذا في الخانية‘‘

(كتاب الطلاق، قبيل:مطلب في المسائل التي تصح مع الإكراه، 3/ 235، 236، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100588

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں