بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عاقلہ بالغہ لڑکی کا والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنا


سوال

ایک لڑکی کے والدین نے اس کا رشتہ خاندان میں کہیں دور کرایا، لیکن اس میں نکاح وغیرہ نہیں ہوا تھا، صرف وعدہ ہوا تھا، لڑکی نے اس وقت تو کچھ نہیں کہالیکن اب اس رشتے پر راضی نہیں ہے اور وہ کسی دوسرے لڑکے سے نکاح کرنا چاہتی ہے، یہ دوسرا لڑکا لڑکی کا قریبی رشتے دار بھی ہے، کفو بھی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ لڑکی اس دوسرے لڑکے سے والدین کو بتائے بغیر نکاح کرے تو کیا نکاح ہوجائے گا؟ یا والدین کو پتہ ہو لیکن وہ اس نکاح پر راضی نہ ہوں تو کیا یہ نکاح ہوجائے گا؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نکاح کے معاملہ میں عاقلہ بالغہ لڑکی کے ولی کو اس بات کا حکم دیتی ہے کہ اس کانکاح اس کی مرضی کے بغیر نہ کرے، بلکہ اس کے نکاح کے لیےاس سے اجازت اور دلی رضامندی حاصل کرے، اگر لڑکی نکاح پر راضی نہ ہو تو ولی کے لیےاس کازبردستی نکاح کرنا درست نہ ہو گا۔

نیز اگر عاقلہ بالغہ لڑکی اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر اپنا نکاح خود کرے یا  والدین کے علاوہ کسی اور کو ولی مقرر کرکے نکاح کرےتو شرعاً ایسا نکاح منعقد ہوجاتا ہے، اگرچہ والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنا  پسندیدہ نہیں ہے، اگر لڑکی نے ولی کی اجازت کے بغیرغیر کفو میں نکاح کیا تواولاد ہونے سے پہلے پہلے لڑکی کے اولیاء کو عدالت سے رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے،  اور اگر کفو میں نکاح کیا ہے توپھر لڑکی کے اولیاءکو وہ نکاح فسخ کرنے کا اختیارنہیں ہوتا ، اور کفو کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا دین،دیانت، مال ونسب، پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو، نیز کفاءت میں مرد کی جانب کا اعتبار ہے یعنی لڑکے کا لڑکی کے ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے، لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔

لہذا صورت مسئولہ  میں اگر لڑکی اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر اپنا نکاح خود کرے گی تو شرعاً نکاح منعقد ہوجائے گا لیکن ایسا کرنا پسندیدہ عمل نہیں ہے، اگر لڑکا لڑکی کا ہم پلہ نہیں ہوگا تو مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق لڑکی کے اولیاء کو عدالت سے نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہوگا، اس لئے بہتر یہ ہے کہ لڑکی والدین کے طے کیے ہوئے رشتے پر راضی رہے اور انہیں کی مرضی و خوشی کو ترجیح دے۔

فتاوى هنديہ میں ہے:

"لا يجوز نكاح أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكرا كانت أو ثيبا فإن فعل ذلك فالنكاح موقوف على إجازتها فإن أجازته؛ جاز، وإن ردته بطل، كذا في السراج الوهاج."

(کتاب النکاح،الباب الرابع في الأولياء في النكاح،1/ 287، ط: رشيدية)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

" الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلا بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض."

(کتاب النکاح، فصل ولاية الندب والاستحباب فی النکاح،2/ 247ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"ونظم العلامة الحموي ما تعتبر فيه الكفاءة فقال:

إن الكفاءة في النكاح تكون في ... ست لها بيت بديع قد ضبط

نسب وإسلام كذلك حرفة ... حرية وديانة مال فقط" 

(كتاب النكاح، باب الكفاءة،3/ 86،ط: سعيد)

وفيه أيضا:

"(وله) أي للولي (إذا كان عصبة) ولو غير محرم كابن عم في الأصح خانية، وخرج ذوو الأرحام والأم والقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح (ما لم) يسكت حتى (تلد منه) لئلا يضيع الولد."

(كتاب النكاح، باب الولى،3/ 56 ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403101921

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں