بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عاقلہ بالغہ کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر کرنا


سوال

ایک عاقلہ بالغہ لڑکی کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر کرایا گیا، نکاح سے کچھ دیر پہلے لڑکی کے بڑے بھائی نے اس کی رضامندی طلب کی تو لڑکی نے  صاف اور صریح الفاظ میں انکار کردیا اور اپنی پسند بتائی لیکن پھر بھی والدین اور بڑے بھائی نے زبردستی لڑکی کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر کردیا جبکہ لڑکا غیرکفو یعنی  دوسرے  خاندان کا ہے، حالانکہ لڑکی اپنی پھوپھی کے بیٹے سے نکاح کرنا چاہتی تھی۔ رخصتی سے ایک دو دن پہلے لڑکی نے گھر سے بھاگ کر اپنی پسند کے لڑکے یعنی پھوپھی کے بیٹے کے ساتھ کورٹ میرج کرلی۔ 

اب پوچھنا یہ ہے کہ پہلا نکاح توڑے یا ختم کیے بغیر لڑکی  دوسرا نکاح کرسکتی  ہے؟ ان دونوں نکاحوں میں سے کون سا نکاح درست ہے؟ واضح رہے کہ لڑکی نے آخر وقت تک پہلے نکاح پر رضامندی کا اظہار نہیں کیا تھا بلکہ پہلا نکاح ہوجانے کے بعد شوہر اول کو موبائل کے ذریعے میسیج بھی کیا کہ میں اس نکاح پر راضی نہیں ہوں والدین نے زبردستی نکاح کرایا ہے۔ 

جواب

اگر والدین کے نکاح کراتے  وقت مذکورہ عاقلہ بالغہ  لڑکی نے اس نکاح پر رضامندی کا اظہار نہیں کیا تھا، اور نہ ہی خود اس نکاح کو قبول کیا اور نہ ہی کسی کو مجلسِ نکاح میں اپنی طرف سے اس نکاح کو قبول کرنے کا وکیل بنایا تو یہ نکاح ہوا ہی نہیں ، اس صورت میں مذکورہ لڑکی نے اپنی پسند کے لڑکے سے گواہوں کی موجودگی میں   جو نکاح (کورٹ میرج) کیا ہے، وہ  شرعًا منعقد ہوچکا ہے اگرچہ والدین کی رضامندی کے بغیر یوں بھاگ کر نکاح کرنا پسندیدہ عمل نہیں ہے۔

  لیکن اگر لڑکی نے راضی نہ ہونے کے باوجود والدین اور بڑے بھائی کے دباؤ میں آکر ان کی طرف سے  زبردستی کرنے کی وجہ سے زبانی طور پر اس نکاح کو قبول کرلیا تھا یا کسی کو  اجازت دے کر قبول کرنے  کا وکیل بنالیا تھا تو پھر اس صورت میں والدین کا کرایا گیا  نکاح منعقد ہوچکا ہے، اس صورت میں لڑکی کا گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کرنا نکاح پر نکاح کرنا ہے جوکہ حرام ہے اور دوسرا نکاح باطل ہے۔ 

 الفتاوى الهندية (1/ 287):

"لايجوز ‌نكاح ‌أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكرا كانت أو ثيبا فإن فعل ذلك فالنكاح موقوف على إجازتها فإن أجازته؛ جاز، و إن ردته بطل، كذا في السراج الوهاج."

(كتاب النكاح، الباب الرابع في الأولياء، ط: رشيدية)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 247):

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلا بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض."

(کتاب النکاح، فصل ولاية الندب والاستحباب فی النکاح، ط: سعید )

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144303100658

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں