بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عقیقہ ،قربانی اور صدقہ کے گوشت کا حکم


سوال

عقیقہ کا گوشت، قربانی کا گوشت یا کوئی صدقہ ،عموماً لوگ کلیجی کو الگ سے رکھ دیتے ہیں تقسیم نہیں کرتے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس کو تقسیم کرنا چاہیے ؟ اور عقیقہ یا صدقہ کا گوشت گھر میں رکھنا جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ قربانی اور عقیقہ کا   گوشت سارا خود بھی کھاسکتے ہیں اور گھر والوں کو بھی کھلاسکتے ہیں اور دوسروں کو ہدیہ بھی دے سکتے ہیں، البتہ  مستحب یہ ہے کہ  قربانی کے گوشت کی طرح اس کے بھی تین حصے کیے جائیں،  ایک حصہ اپنے لیے رکھا جائے اور ایک حصہ عزیز و اقارب میں تقسیم کیا جائے اور ایک حصہ فقراء میں تقسیم کرنا مستحب  ہے ۔

’’صدقہ‘‘ سے مراد اگر واجب صدقہ (مثلا زکاۃ، صدقہ فطر، کفارہ، فدیہ، دم) ہے  تو جو لوگ صاحبِ  نصاب نہ ہوں اور ان کے لیے زکوۃ لینا جائز ہو ان کے لیے صدقہ (واجبہ) کا گوشت کھانا جائز ہے، اور  جو لوگ مستحق زکوٰۃ نہ ہو ان کے لیے صدقہ واجب کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔

اور ’’ نفلی صدقہ‘ (عام صدقہ) ہو تو اس کا گوشت ہر شخص کھا سکتا ہے، خواہ وہ مال دار ہو یا صدقہ دینے والے کا قریبی رشتہ دار ہو۔  البتہ جو شخص کسی وجہ سے نفلی صدقہ نکال رہاہو تو اسے چاہیے کہ اپنے زیرِ کفالت افراد کو اس صدقہ کی چیز نہ کھلائے نہ خود کھائے، بلکہ ایسی صورت میں زیادہ بہتر یہ ہے کہ کسی مستحق کو دے؛ تاکہ ثواب بھی زیادہ ہو، اگر خود کھالے تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ 

لہذا صورت ِ مسئولہ میں عقیقہ اور قربانی اور نفلی صدقہ کے گوشت میں کلیجی  الگ رکھنا اور اس کو تقسیم نہ کرنا شرعاًجائز ہے ،البتہ صدقہ واجبہ کے گوشت میں اس کو تقسیم کرنا ضروری ہے ۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"والأفضل أن يتصدق بالثلث ويتخذ الثلث ضيافة لأقاربه وأصدقائه ويدخر الثلث لقوله تعالى: {فكلوا منها وأطعموا القانع والمعتر} [الحج: 36] وقوله - عز شأنه - {فكلوا منها وأطعموا البائس الفقير} [الحج: 28] وقول النبي - عليه الصلاة والسلام - «كنت نهيتكم عن لحوم الأضاحي فكلوا منها وادخروا» فثبت بمجموع الكتاب العزيز والسنة أن المستحب ما قلنا ولأنه يوم ضيافة الله - عز وجل - بلحوم القرابين فيندب إشراك الكل فيها ويطعم الفقير والغني جميعا لكون الكل أضياف الله تعالى - عز شأنه - في هذه الأيام وله أن يهبه منهما جميعا، ولو تصدق بالكل جاز ولو حبس الكل لنفسه جاز؛ لأن القربة في الإراقة.(وأما) التصدق باللحم فتطوع وله أن يدخر الكل لنفسه فوق ثلاثة أيام؛ لأن النهي عن ذلك كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ بما روي عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه قال «إني كنت نهيتكم عن إمساك لحوم الأضاحي فوق ثلاثة أيام ألا فأمسكوا ما بدا لكم» وروي أنه - عليه الصلاة والسلام - قال «إنما نهيتكم لأجل الرأفة دون حضرة الأضحى» ألا إن إطعامها والتصدق أفضل إلا أن يكون الرجل ذا عيال وغير موسع الحال فإن الأفضل له حينئذ أن يدعه لعياله ويوسع به عليهم؛ لأن حاجته وحاجة عياله مقدمة على حاجة غيره قال النبي - عليه الصلاة والسلام - «ابدأ بنفسك ثم بغيرك»".

(کتاب التضحیۃ،ج:5،ص:81،دارالکتب العلمیۃ)

اعلاء السنن میں ہے :

"یصنع بالعقیقة مایصنع بالأضحیة ... وفي قوله: "یأکل أهل العقیقة ویهدونها" دلیل علی بطلان ما اشتهر علی الألسن: أن أصول المولود لایأکلون منها؛ فإن أهل العقیقة هم الأبوان أولًا ثم سائر أهل البیت".

(باب افضلیۃ ذبح  الشاۃ فی العقیقۃ،ج:17،ص:127،ادارۃ القرآن)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405100928

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں