بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عقیقہ کے دن سر کےمعمولی بال کاٹ کر بقیہ سر بعد میں صاف کرنا


سوال

اگر عقیقہ کے دن بچے کے سر کے تھوڑے بال کاٹ دیے جائیں اور ایک دن بعد یا چودھویں دن پورا سر گنجا کیا جائے تو سنت ادا ہوگی یا نہیں؟

جواب

بچے کی پیدائش پر بطورِ شکرانہ جو قربانی کی جاتی ہے اسے ’’عقیقہ‘‘ کہتے ہیں،عقیقہ کرنا مستحب ہے، عقیقہ کا مسنون وقت یہ ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرے، اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکے تو چودھویں (14)  دن ، ورنہ اکیسویں (21) دن کرے،  اس کے بعد عقیقہ کرنا مباح ہے، اگر کرلے تو ادا ہوجاتا ہے،  تاہم جب بھی عقیقہ کرے بہتر یہ ہے پیدائش کے دن  کے حساب سے ساتویں دن کرے۔

عقیقہ کرلینے کے بعد بچے کے مکمل بال صاف کرلینے چاہییں۔کچھ بال کاٹ کر باقی بالوں کو چھوڑ دینا درست نہیں، نیز اس طرح کرنے سے بعض احادیث میں ممانعت بھی آئی ہے؛ لہذا یا تو مکمل سر کے بال صاف کردیے جائیں اور اگر ساتویں دن عقیقہ کرنا مشکل ہو تو چودھویں دن یا اکیسویں دن عقیقہ کے ساتھ ہی بچے کے مکمل بال اتار لیے جائیں۔

اور اگر بچے کے سر کے بال اتارنے میں دشواری نہ ہو اور عقیقہ میں تاخیر ہو تو ساتویں دن مکمل بال بھی اتارے جاسکتے ہیں، جانور اگرچہ چودہویں یا اکیسویں دن ذبح کرلیا جائے۔

إعلاء السنن میں ہے:

’’أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع‘‘. 

(17/117، باب العقیقة، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة)

فيض الباري شرح صحيح البخاري (5/ 88):

"ثم إن الترمذي أجاز بها إلى يوم إحدى وعشرين. قلتُ: بل يجوز إلى أن يموت، لما رأيت في بعض الروايات أنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلّم عقّ عن نفسه بنفسه".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 336):

"يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي".

الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (4/ 2747):

"تذبح يوم سابع ولادة المولود، ويحسب يوم الولادة من السبعة. فإن ولدت  ليلاً، حسب اليوم الذي يليه....  وصرح الشافعية والحنابلة: أنه لو ذبح قبل السابع أو بعده، أجزأه".

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 525):

"وأما حلق الرأس ففي التتارخانية عن الطحاوي: أنه سن عند أئمتنا الثلاثة اهـ وفي روضة الزند ويستى: السنة في شعر الرأس أما الفرق وأما الحلق اهـ يعني حلق الكل إن أراد التنظيف، أو ترك الكل ليدهنه ويرجله ويفرقه؛ لما في أبي داود والنسائي عن ابن عمران أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى صبياً حلق بعض رأسه وترك بعضه فقال صلى الله عليه وسلم: "احلقوه كله أو اتركوه كله". وفي الغرائب: يستحب حلق الشعر في كل جمعة".

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144205200027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں