بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عقیقہ میں مرغا ذبح کرنے کا حکم


سوال

اگر بچے کی پیدائش پر عقیقہ کے لیے بکرے خریدنے کے پیسےنہ ہوں ، تومرغا ذبح کرنے سے عقیقہ ہوجائےگا یا نہیں؟ راہ نمائی فرمادیں۔

جواب

واضح رہے کہ ازروئے شرع عقیقہ میں وہی جانور ذبح کیاجاسکتا ہے، جو قربانی میں ذبح کیاجاسکے،اور جس جانور کی قربانی کرنا درست نہیں ہے،اس کو عقیقہ میں ذبح کرنا بھی درست نہیں ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں بکرا ذبح کرنے کی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سےعقیقہ کے لیےمرغا ذبح  کرنے سے عقیقہ کی سنت ادا نہیں ہوگی۔

باقی نومولود کا"عقیقہ" مستحب ہے، ضروری نہیں ہے، اگر گنجائش ہو تو کرلینا چاہیے،اوراگرفی الوقت  گنجائش نہ ہو تو اسے مؤخر بھی کیا جاسکتاہے، اور عقیقہ کا مستحب وقت یہ ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرے، اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکے تو چودھویں (14)  دن، ورنہ اکیسویں (21) دن کرے،  اس کے بعد عقیقہ کرنا مباح ہے، اگر کرلے تو ادا ہوجاتا ہے۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"جو جانور قربانی کے لائق ہوگا،وہ عقیقہ کرنے کے لائق ہوگا۔"

(کتاب الاضحیۃ، باب العقیقہ، ج:10، ص:65، ط:دارالاشاعت)

بذل المجہود میں ہے:

"ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في "الجامع المحبوبي"، أو تطوعا على ما في "شرح الطحاوي"، وهي شاة ‌تصلح ‌للأضحية تذبح للذكر والأنثى."

(كتاب الضحايا، باب في العقيقة، ج:9، ص:605،ط:مركز الشيخ ابي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية،هند)

فتاوی شامی میں ہے:

"يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضة أو ذهبا ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعا على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئا أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنة مؤكدة شاتان عن الغلام وشاة عن الجارية غرر الأفكار ملخصا، والله تعالى أعلم."

(كتاب الأضحية،ج:6، ص:336،، ط:سعيد)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"جنسها وسنها وصفتها: هي في الجنس والسن والسلامة من العيوب مثل الأضحية، من الأنعام: الإبل، والبقر، والغنم."

 

(القسم الاول، الباب  الثامن، الفصل الثاني العقيقة واحكام المولود، ج:4، ص:2747، ط:دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408100460

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں