بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عقیقہ کے موقع پر حلق کرانا اور حلق کا وقت


سوال

لڑکے کا عقیقہ ہے، اس موقع پر سرکے بال کتنے کاٹنے ہیں؟ کیا حلق کرانا ہے یا قصر کافی ہے؟ اور کب تک وقت رہتا ہے ذبح کے بعد؟

جواب

بچہ کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرکے بچے کے بالوں کا حلق کرنا مستحب ہے، ساتویں دن  جانور کے ذبح کرنے کے بعد حلق کر دینا چاہیے، اگر کسی وجہ سے حلق کروانےمیں تاخیر ہوجائے اور کچھ دن بعد حلق کروالیا جائے  تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، البتہ مستحب وقت فوت ہوجائے گا۔ بچے کی پیدائش کے بعد اس کے سر کے حلق کرنے  کی چند حکمتیں درج ذیل ہیں:

1۔ عقیقہ میں  دو ہی کام ہوتے ہیں ایک بچے کا سر منڈوانا اور  دوسرا شکرانہ کے طور پر جانور ذبح کرنا، اور  ان دونوں عملوں میں ایک خاص ربط اور  مناسبت ہے، وہ یہ کہ یہ دونوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت کی نشانی اور یادگار ہیں، حج میں بھی ان دونوں کاموں کا اسی طرح جوڑ ہے،  اور حاجی قربانی کرنے کے بعد  سر صاف کرتا ہے، اس اعتبار سے عقیقہ میں عملی طور پر یہ اعلان ہوتا ہے کہ ہمارا ربط اور تعلق اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہے اور ہر بچہ ملتِ ابراہیمی ہی کا حصہ ہے، اور حج میں بھی حلق کرنا ہی افضل ہے۔

2۔ سر گنجا کرنے کی ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے بچے کے سر کے پیدائشی میل کچیل اور جراثیم ختم ہوجاتے ہیں۔

3۔ پیدائشی بال کم زور ہوتے ہیں، حلق کے بعد وہ صاف ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ گھنے، مضبوط اور طاقت ور بال اگ جاتے ہیں۔

4۔ بچے پر دو حالتیں آتی ہیں:

(1) پیدائش سے پہلے ماں کے پیٹ میں ہونے کی حالت،  جس میں بچہ پوشیدہ ہوتا ہے۔ (2) بچہ کی پیدائش کے بعد کی ابتدائی حالت۔

بچے کے سر کے بال پیدائش سے پہلے (ماں کے پیٹ میں ہونے کی حالت) کے  آثار اور بقایاجات ہوتے ہیں، اس لیے ان کا زائل کرنا پیدائش کے بعد  کی ابتدائی حالت کی مستقل نشانی ہے۔ 

5۔ اس سے بچے کے سر کے مسام کھل جاتے ہیں جس سے بخارات آسانی سے نکل جاتے ہیں، جس سے بچہ کی دیکھنے، سونگھنے اور سننے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔

وفي سنن النسائي:

"متى يعق؟

أخبرنا عمرو بن علي، ومحمد بن عبد الأعلى قالا: حدثنا يزيد وهو ابن زريع، عن سعيد، أنبأنا قتادة، عن الحسن، عن سمرة بن جندب، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «كل غلام رهين بعقيقته تذبح عنه يوم سابعه ويحلق رأسه ويسمى»". (7/ 166)

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين :

"يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي".

(رد المحتار6/ 336)

وفي حاشية الدسوقى على الشرح الكبير  :

"و (ندب) ولو لم يعق عنه حلق رأس المولود ولو انثى و (التصدق) بزنة شعره".

( ۲ ؍/۳۹۸ ، ط: دار الکتب العلمیة)

وفي حجة الله البالغة:

ومنها: أن النصارى كان إذا ولد لهم ولدًا صبغوه بماء اصفر يسمونه المعمودية، وكانوا يقولون: يصير الولد به نصرانيًا، وفي مشاكلة هذا الاسم نزل قوله تعالى: {صبغة الله ومن أحسن من الله صبغة}.
فاستحب أن يكون للحنفيين فعل بإزاء فعلهم ذ لك يشعر بكون الولد حنيفيًّا تابعًا لملة إبراهيم واسماعيل عليهما السلام والنفسانية، فأبقاها النبي صلى الله عليه وسلم وعمل بها، ورغب الناس فيها من الإجماع على ذبح ولده، ثم نعمة الله عليه أن فداه بذبح عظيم، وأشهر شرائعهما الحج الذي فيه الحلق والذبح، فيكون التشبه بهما في هذا تنويهًا بالملة الحنيفية ونداءً أن الولد قد فعل به ما يكون من أعمال هذه الملة". (2/ 223)

وفي فيض القدير:

(زِنِيْ) يا فاطمة (شعر الحسين) بعد حلقه؛ لأن الحلق من قبيل إماطة الأذى، فإن شعر المولود ضعيف، فيحلق ليقوى مع ما فيه من فتح المسام، ليخرج البخار بسهولة، وفي ذلك تقوية حواسه... الخ (4/ 66)

وفي تحفة المودود بأحكام المولود :

وَكَانَ حلق رَأسه إمَاطَة الْأَذَى عَنهُ وَإِزَالَة الشّعْر الضَّعِيف ليخلفه شعر أقوى وَأمكن مِنْهُ وأنفع للرأس وَمَعَ مَا فِيهِ من التَّخْفِيف عَن الصَّبِي وَفتح مسام الرَّأْس ليخرج البخار مِنْهَا بيسر وسهولة وَفِي ذَلِك تَقْوِيَة بَصَره وَشمه وسَمعه".: 71)

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

عقیقے کی قربانی کے بعد بال کاٹے جائیں

 فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144201201169

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں