بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عقیقے کا جانور ذبح کرنے کے بعد فلاحی ادارے میں دینے کا حکم


سوال

کیا عقیقے کا جانور کسی خیراتی ادارے کو دے سکتے ہیں ؟  آن لائن  جانور منگوا کر گھر پر ذبح کر کے واپس ان کو دے دیا جاتا ہے اور  پھر اس ادارے کی طرف سے جانور  لوگوں کو  کھلادیا جاتا ہے ۔

جواب

واضح رہے کہ عقیقہ صحیح ہونے کے لیے بکرا وغیرہ کو ذبح کرنا ضروری ہے اور عقیقے کے جانور بکرا وغیرہ کی وہی شرائط ہیں جو قربانی کے جانور کے لیے ہوتی ہیں ،پس عقیقے کی نیت سےاگر جانور ذبح کردیا جاۓ تو عقیقہ ادا ہوجاتا ہے،جس کے بعد پورا جانور یا اس کا جتنا حصہ دینا مقصود ہو اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی فلاحی ادارے  کویا اور کسی بھی  جگہ دیا جاسکتا ہے،لیکن اگرعقیقے کا جانور  ذبح نہیں کیا اور بغیر ذبح کیے زندہ جانور ہی کسی کو دے دیا اور جس کو زندہ جانور دیا گیا اس نے بھی عقیقے کا بکرا وغیرہ ذبح نہیں کیا تو اس سے عقیقہ درست نہیں ہوگا،نیز قربانی کے گوشت کی طرح  عقیقےکےگوشت میں بھی افضل وبہتر یہی ہے کہ اس کو تین حصوں میں تقسیم کرلیا جاۓ،جس میں سے ایک حصہ اپنے لیےرکھ لیا جاۓ،ایک حصہ  احباب و اقارب   کو دے دیا جاۓ  اور ایک حصہ فقراء و مساکین میں تقسیم کردیا جاۓ۔ 

إعلاء السنن میں ہے:

"يستحب الأكل منها والإطعام والتصدق كما في الأضحية......

وفیہ ایضاً:

ويستحب أن ياكل منها و يتصدق ويهدي ،كما في الأضحية."

(كتاب الذبائح، باب العقيقة، باب أفضلية ذبح الشاة في العقيقة، ج:17، ص:118،120، ط:إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) أن لا يقوم غيرها مقامها حتى لو تصدق بعين الشاة أو قيمتها في الوقت لا يجزيه عن الأضحية؛ لأن ‌الوجوب ‌تعلق ‌بالإراقة والأصل أن الوجوب إذا تعلق بفعل معين أنه لا يقوم غيره مقامه."

(كتاب التضحية، فصل في أنواع كيفية الوجوب،ج:5، ص:66، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئا أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك."

(كتاب الأضحية، خاتمة :يستحب لمن ولد له ولد، ج:6، ص:336، ط:سعيد)

الحاوی الکبیر میں ہے:

"والفصل الخامس: فيما يصنع بالعقيقة بعد أن يذبح ... ‌يسلك ‌به ‌مسلك ‌الضحايا في الأكل والادخار والصدقة والهدية."

(كتاب الضحايا، باب العقيقة، ج:15، ص:129، ط:دارالكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100674

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں