کیا عقیقہ کے دن ختنہ ضروری ہے؟
واضح رہے کہ ختنہ اسلام کا شعار اور سنتِ مؤکدہ ہے، اس لیے بچپن ہی میں بچے کی ختنہ کا اہتمام ہونا چاہیےاور مستحب یہ ہے کہ ختنہ ساتویں دن سے بارہ سال کے اندر اندر کرلیا جائے۔ لہذا صورت مسئولہ میں عقیہ کے دن ختنہ کرنا ضروری نہیں ہے، باقی اگر بچہ اس کے قابل ہے تو ختنہ کرلینا بہتر ہے۔
تکملہ فتح الملہم میں ہے:
"وأما الوقت المستحب للختان ، فهو السابع من یوم الولادۃ إلی اثني عشرۃ سنة ، وقد ختن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم الحسن و الحسین رضی اللہ عنهما الیوم السابع من ولادتهما ، رواہ الحاکم في المستدرک عن عائشة رضی اللہ عنها . وقال مکحول : إن إبراهیم علیہ السلام ختن ابنه اسحاق لسبعة أیام ، وختن ابنه اسماعیل لثلاث عشرۃ سنة ."
(کتاب الفضائل ، باب فضل إبراهیم علیه السلام جلد ۵ ص: ۹ ط: مکتبة دارالعلوم کراتشي)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"واختلفوا في الختان قيل إنه سنة وهو الصحيح كذا في الغرائب."
(کتاب الکراهیة ، الباب التاسع عشر فی الختان جلد ۵ ص: ۳۵۷ ط: دارالفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) الأصل أن (الختان سنة) كما جاء في الخبر (وهو من شعائر الإسلام) وخصائصه (فلو اجتمع أهل بلدة على تركه حاربهم) الإمام فلا يترك إلا لعذر وعذر شيخ لا يطيقه ظاهر ."
(کتاب الخنثي جلد ۶ ص: ۷۵۱ ط: دارالفکر)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401100547
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن