بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عقیقہ کے جانور کی شرائط


سوال

عقیقہ کے لیے جانورمیں کوئی نقص نہ ہو کیا یہ ضروری ہے؟ جیسے کان کا کٹا ہوا ہونایا اور آنکھ میں کوئی نقص ہونا، یعنی جیسے قربانی کے جانور میں ہوتا ہے کہ جانور بالکل صحیح سلامت ،صحت مند ہو، تو کیا عقیقہ میں بھی جانور کا صحیح سلامت ہونا ضروری ہے؟

جواب

عقیقہ کے جانور میں بھی ان شرائط کاہوناضرروی ہے جوشرائط قربانی کے جانور کے لیے ہیں،یعنی جن جانوروں کی قربانی درست ہے ان سے عقیقہ کرنابھی درست ہے، بکرا/بکری، بھیڑ، دنبہ، گائے ، بیل اور اونٹ سب میں قربانی کی طرح عقیقہ بھی ہوسکتا ہے، اور بڑے جانور  مثلاً گائے بیل اور اونٹ میں جس طرح قربانی کے سات حصے ہوتے ہیں اس طرح سات عقیقے بھی ہوسکتے ہیں۔

اسی طرح عقیقہ کے جانور کے لیے  عمر اور عیوب سے پاک ہونے میں بھی قربانی والی شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

سنن الترمذي - (4 / 101):

"والعمل على هذا عند أهل العلم يستحبون أن يذبح عن الغلام العقيقة يوم السابع فإن لم يتهيأ يوم السابع فيوم الرابع عشر فإن لم يتهيأ عق عنه يوم حاد وعشرين و قالوا: لايجزئ في العقيقة من الشاة إلا ما يجزئ في الأضحية."

المستدرک  میں ہے: 

"عن عطاء، عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزوراً، فقالت عائشة رضي الله عنها: «لا بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة تقطع جدولاً، و لايكسر لها عظم فيأكل ويطعم ويتصدق، وليكن ذاك يوم السابع، فإن لم يكن ففي أربعة عشر، فإن لم يكن ففي إحدى وعشرين». هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ".

( المستدرک علی الصحیحین للحاکم(4/ 266) رقم الحدیث: 7595،  کتاب الذبائح، ط: دار الكتب العلمية – بيروت)

الموطأ - رواية يحيى الليثي - (2 / 501)

"قال مالك الأمر عندنا في العقيقة ان من عق فإنما يعق عن ولده بشاة شاة الذكور و الإناث و ليست العقيقة بواجبة و لكنها يستحب العمل بها و هي من الأمر الذي لم يزل عليه الناس عندنا فمن عق عن ولده فإنما هي بمنزلة النسك و الضحايا لايجوز فيها عوراء ولا عجفاء ولا مكسورة ولا مريضة ولا يباع من لحمها شيء ولا جلدها ويكسر عظامها ويأكل أهلها من لحمها ويتصدقون منها و لايمس الصبي بشيء من دمها."

فتاوی شامی میں ہے:

"يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً، ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئاً أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا، واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنةً مؤكدةً شاتان عن الغلام، وشاةً عن الجارية، غرر الأفكار ملخصاً، والله تعالى أعلم."

(6/ 336، کتاب الاضحیۃ، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101081

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں