بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عقیدہ تثلیث (تین خدا ہونے کا عقیدہ) رکھنے والی اہلِ کتاب لڑکی سے مسلمان مرد کے نکاح کرنے کا حکم


سوال

کیا عقیدہِ تثلیث رکھنے والی اہلِ کتاب لڑکی سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مسلمان مرد کا نکاح کسی کافر عورت سے جائز نہیں،البتہ اگرکتابیہ یعنی یہودیہ یا نصرانیہ  ہو تو اس سے  مسلمان مرد کا نکاح دو شرطوں کے ساتھ ہو سکتا ہے:

(1)  وہ  صرف نام کی عیسائی/یہودی اور درحقیقت لامذہب دہریہ نہ ہو،بلکہ اپنے مذہبی اصول کوکم ازکم مانتی ہو، اگرچہ عمل میں خلاف بھی کرتی ہو، یعنی اپنے نبی پر ایمان رکھتی ہو اور اس پر نازل ہونے والی کتاب پر بھی ایمان رکھتی ہو، اگرچہ وہ توحید کی قائل نہ ہو، بلکہ تثلیث کا عقیدہ رکھتی ہو ، کیوں کہ قرآنِ پاک میں نصاریٰ کو عقیدۂ تثلیث رکھنے کے باوجود ایک آسمانی مذہب کے پیروکار ہونے کی وجہ سے اہلِ کتاب ہی قرار دیا گیا ہے اور اہلِ کتاب سے  نکاح کی گنجائش دی گئی ہے۔

(2)  وہ اصل  میں ہی  یہودیہ یا نصرانیہ ہو، اسلام سے مرتدہوکر یہودیت یا نصرانیت اختیار نہ کی ہو۔

جب یہ دو شرطیں کسی کتابیہ عورت میں پائی جائیں  تو اس سے نکاح صحیح و منعقد ہوجاتا ہے، لیکن بلاضرورتِ شدیدہ اس سے نکاح کرنا مکروہ اور بہت مفاسد پر مشتمل ہے۔  آج کل کے پرفتن ماحول میں جب کہ برائی کا اثر قبول کرنے میں اضافہ روز افزوں ہے، اور عام طور پر حال یہ ہے کہ مرد کا اثر بیوی پر قائم ہونے کے بجائے شاطر لڑکیاں مردوں کو اپنا تابع دار بنالیتی ہیں، نیز اہلِ کتاب ماؤں کے فاسد اَثرات اولاد پر بھی بہت زیادہ پڑتے ہیں، اس لیے جواز کے باوجود اہلِ کتاب لڑکیوں سے نکاح نہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، اس لیے کہ  حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں  مسلمانوں کو کتابیہ عورتوں کے نکاح سےمنع فرمادیاتھا۔

باقی یہ بات کہ  کیا اہلِ  کتاب ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ لوگ اپنی کتاب پر صحیح طور پر ایمان و عمل رکھتے ہوں؟ تو اس کے جواب میں حضرت مولانا مفتی شفیع عثمانی صاحب معارف القرآن میں تحریر فرماتے ہیں:

” اب رہا یہ معاملہ کہ یہود و نصاریٰ کو اہلِ کتاب کہنے اور سمجھنے کے لیے کیا یہ شرط ہے کہ وہ صحیح طور پر اصلی تورات و انجیل پر عمل رکھتے ہوں؟  یا محرف تورات اور انجیل کا اتباع کرنے والے اور عیسیٰ و مریم (علیہما السلام) کو خدا کا شریک قرار دینے والے بھی اہلِ کتاب میں داخل ہیں،  سو قرآنِ کریم کی بے شمار تصریحات سے واضح ہے کہ اہلِ کتاب ہونے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ وہ کسی آسمانی کتاب کے قائل ہوں اور اس کی اتباع کرنے کے دعوے دار ہوں۔ خواہ وہ اس کے اتباع میں کتنی گم راہیوں میں جا پڑے ہوں،  قرآنِ کریم نے جن کو اہلِ کتاب کا لقب دیا، انہیں کے بارے میں یہ بھی جابجا ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اپنی آسمانی کتابوں میں تحریف کرتے ہیں۔{یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِه}  اور یہ بھی فرمایا کہ یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دے دیا اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو،{وَقَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِ}، ان حالات وصفات کے باوجود جب قرآن نے ان کو اہلِ کتاب قرار دیا تو معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ جب تک یہودیت و نصرانیت کو بالکل نہ چھوڑ دیں وہ اہلِ کتاب میں داخل ہیں۔ خواہ وہ کتنے ہی عقائدِ فاسدہ اور اعمالِ سیئہ میں مبتلا ہوں۔ 
 امام جصاص نے ’’احکام القرآن‘‘  میں نقل کیا ہے کہ حضرت فاروق اعظم (رضی اللہ عنہ) کے عہدِ خلافت میں آپ کے کسی عامل یا گورنر نے ایک خط لکھ کر یہ دریافت کیا کہ یہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جو تورات پڑھتے ہیں اور یوم السبت یعنی ہفتہ کے دن کی تعظیم بھی یہود کی طرح کرتے ہیں، مگر قیامت پر ان کا ایمان نہیں، ایسے لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ حضرت فاروق اعظم (رضی اللہ عنہ ) نے تحریر فرمایا کہ وہ اہلِ کتاب ہی کا ایک فرقہ سمجھے جائیں گے۔
 صرف نام کے یہودی و نصرانی جو در حقیقت دہریے ہیں وہ اس میں داخل نہیں۔  آج کل یورپ کے عیسائی اور یہودیوں میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اپنی مردم شماری کے اعتبار سے یہودی یا نصرانی کہلاتے ہیں، مگر در حقیقت وہ خدا کے وجود اور کسی مذہب ہی کے قائل نہیں۔ نہ تورات و انجیل کو خدا کی کتاب مانتے ہیں اور نہ موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) کو اللہ کا نبی و پیغمبر تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ شخص مردم شماری کے نام کی وجہ سے اہلِ کتاب کے حکم میں داخل نہیں ہوسکتے۔ 
 نصاریٰ کے بارے میں جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ان کا ذبیحہ حلال نہیں، اس کی وجہ یہ بتلائی کہ یہ لوگ دینِ نصرانیت میں سے بجز شراب نوشی کے اور کسی چیز کے قائل نہیں ۔۔۔ ابنِ جوزی نے سندِ صحیح کے ساتھ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ نصاری بنی تغلب کے ذبائح کو نہ کھاؤ؛ کیوں کہ انہوں نے مذہبِ نصرانیت میں سے شراب نوشی کے سوا کچھ نہیں لیا۔ امام شافعی نے بھی سند صحیح کے ساتھ یہ روایت نقل کی ہے۔(تفسیر مظہری 34، جلد ٣ مائدہ) ۔
 حضرت علی کرم اللہ وجہ کو بنی تغلب کے متعلق یہی معلومات تھیں کہ وہ بےدین ہیں نصرانی نہیں،  اگرچہ نصرانی کہلاتے ہیں،  اس لیے ان کے ذبیحہ سے منع فرمایا۔ جمہور صحابہ وتابعین کی تحقیق یہ تھی کہ یہ بھی عام نصرانیوں کی طرح ہیں،  بالکل دین کے منکر نہیں،  اس لیے انہوں نے ان کا ذبیحہ بھی حلال قرار دیا۔

’’وقال جمهور الأمة: إن ذبیحة کل نصراني حلال سواء کان من بني تغلب أو غیرهم وکذلک الیهود‘‘. (تفسیر قرطبی ص 78، جلد 6)
 اور جمہور امت کہتے ہیں کہ نصرانی کا ذیحہ حلال ہے، خواہ بنی تغلب میں سے ہو، یا ان کے سوا کسی دوسرے قبیلہ اور جماعت سے ہو، اسی طرح ہر یہودی کا ذبیحہ بھی حلال ہے۔ 
 خلاصہ یہ ہے کہ جن نصرانیوں کے متعلق یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ وہ خدا کے وجود ہی کو نہیں مانتے یا حضرت موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) کو اللہ کا نبی نہیں مانتے،  وہ اہلِ کتاب کے حکم میں نہیں ہیں۔ “ ( سورۂ مائدہ آیت نمبر 5)

سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن صاحب رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’اہلِ کتاب کی لڑکی اگر موجودہ انجیل پر ایمان رکھتی ہے خواہ وہ محرف ہو یا حضرت  عیسیٰ کو نبی مانتی ہو خواہ وہ شرک کرے، یہی حال یہودی لڑکی کا ہے تو ان سے مسلمان کا نکاح جائز ہے، تاہم بہتر نہیں ہے، بصورتِ دیگر اگر یہودی یا نصرانی لڑکی دہریہ ہے،  اپنے نبی یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتی تو اس سے مسلمان کا نکاح ناجائز و حرام ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

کتبہ: ولی حسن (6 رجب المرجب 1399ھ)‘‘ 

"عن نافع عن ابن عمر أنه کان یکره نکاح نساء أهل الکتاب ولایری بطعامهن بأسًا".

(المصنف لابن أبي شیبة ۳؍۴۶۳ رقم: ۱۶۱۵۹ دار الکتب العلمیة بیروت)

"عن ابن عمر أنه کره نکاح نساء أهل الکتاب وقرأ: {وَلَاتَنْکِحُوْا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ} [البقرة: ۲۲۱]".

(المصنف لابن أبي شیبة ۳؍۴۶۳ رقم: ۱۶۱۶۰ بیروت)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 270):

"ومنها: أن لاتكون المرأة مشركةً إذا كان الرجل مسلمًا، فلايجوز للمسلم أن ينكح المشركة؛ لقوله تعالى: {ولاتنكحوا المشركات حتى يؤمن} [البقرة: 221]، ويجوز أن ينكح الكتابية؛ لقوله عز وجل: {والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم}[المائدة: 5] .

والفرق أن الأصل أن لايجوز للمسلم أن ينكح الكافرة؛ لأن ازدواج الكافرة والمخالطة معها مع قيام العداوة الدينية لايحصل السكن والمودة الذي هو قوام مقاصد النكاح إلا أنه جوز نكاح الكتابية؛ لرجاء إسلامها؛ لأنها آمنت بكتب الأنبياء والرسل في الجملة، وإنما نقضت الجملة بالتفصيل بناء على أنها أخبرت عن الأمر على خلاف حقيقته، فالظاهر أنها متى نبهت على حقيقة الأمر تنبهت، وتأتي بالإيمان على التفصيل على حسب ما كانت أتت به على الجملة هذا هو الظاهر من حال التي بني أمرها على الدليل دون الهوى والطبع، والزوج يدعوها إلى الإسلام وينبهها على حقيقة الأمر فكان في نكاح المسلم إياها رجاء إسلامها فجوز نكاحها لهذه العاقبة الحميدة بخلاف المشركة، فإنها في اختيارها الشرك ما ثبت أمرها على الحجة بل على التقليد بوجود الإباء عن ذلك من غير أن ينتهي ذلك الخبر ممن يجب قبول قوله واتباعه - وهو الرسول - فالظاهر أنها لاتنظر في الحجة ولاتلتفت إليها عند الدعوة فيبقى ازدواج الكافر مع قيام العداوة الدينية المانعة عن السكن والازدواج والمودة خاليا عن العاقبة الحميدة فلم يجز إنكاحها ... وأما الآية فهي في غير الكتابيات من المشركات؛ لأن أهل الكتاب، وإن كانوا مشركين على الحقيقة لكن هذا الاسم في متعارف الناس يطلق على المشركين من غير أهل الكتاب قال الله تعالى: {ما يود الذين كفروا من أهل الكتاب ولا المشركين} [البقرة: 105] .

وقال تعالى: {إن الذين كفروا من أهل الكتاب والمشركين في نار جهنم} [البينة: 6] فصل بين الفريقين في الاسم على أن الكتابيات، وإن دخلن تحت عموم اسم المشركات بحكم ظاهر اللفظ لكنهن خصصن عن العموم بقوله تعالى:{والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم}[المائدة: 5] ... ولايجوز للمسلم نكاح المجوسية؛ لأن المجوس ليسوا من أهل الكتاب قال الله تبارك وتعالى: {وهذا كتاب أنزلناه مبارك} [الأنعام: 92] إلى قوله: {أن تقولوا إنما أنزل الكتاب على طائفتين من قبلنا}[الأنعام: 156] معناه والله أعلم، أي: أنزلت عليكم لئلا تقولوا إنما أنزل الكتاب على طائفتين من قبلنا.

ولو كان المجوس من أهل الكتاب لكان أهل الكتاب ثلاث طوائف فيؤدي إلى الخلف في خبره عز وجل، وذلك محال على أن هذا لو كان حكاية عن قول المشركين لكان دليلا على ما قلنا؛ لأنه حكى عنهم القول ولم يعقبه بالإنكار عليهم والتكذيب إياهم، والحكيم إذا حكى عن منكر غيره، والأصل فيه ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «سنوا بالمجوس سنة أهل الكتاب غير أنكم ليسوا ناكحي نسائهم ولا آكلي ذبائحهم» ودل قوله: "سنوا بالمجوس سنة أهل الكتاب" على أنهم ليسوا من أهل الكتاب ولا يحل وطؤها بملك اليمين أيضا، والأصل أن لا يحل وطء كافرة بنكاح ولا بملك يمين إلا الكتابية خاصة؛ لقوله تعالى: {ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن} [البقرة: 221] واسم النكاح يقع على العقد والوطء جميعا فيحرمان جميعًا".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 45):

’’(وصح نكاح كتابية) ، وإن كره تنزيها (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسيح إلها، وكذا حل ذبيحتهم على المذهب بحر.

 (قوله: كتابية) أطلقه فشمل الحربية والذمية والحرة والأمة ح عن البحر (قوله: وإن كره تنزيها) أي سواء كانت ذمية أو حربية، فإن صاحب البحر استظهر أن الكراهة في الكتابية الحربية تنزيهية فالذمية أولى. اهـ.

ح قلت: علل ذلك في البحر بأن التحريمية لا بد لها من نهي أو ما في معناه؛ لأنها في رتبة الواجب. اهـ. وفيه أن إطلاقهم الكراهة في الحربية يفيد أنها تحريمية، والدليل عند المجتهد على أن التعليل يفيد ذلك، ففي الفتح ويجوز تزوج الكتابيات والأولى أن لا يفعل، ولا يأكل ذبيحتهم إلا للضرورة، وتكره الكتابية الحربية إجماعا؛ لافتتاح باب الفتنة من إمكان التعلق المستدعي للمقام معها في دار الحرب، وتعريض الولد على التخلق بأخلاق أهل الكفر، وعلى الرق بأن تسبى وهي حبلى فيولد رقيقا، وإن كان مسلما. اهـ.

فقوله: والأولى أن لا يفعل يفيد كراهة التنزيه في غير الحربية، وما بعده يفيد كراهة التحريم في الحربية تأمل. (قوله: مؤمنة بنبي) تفسير للكتابية لا تقييد ط (قوله: مقرة بكتاب) في النهر عن الزيلعي: واعلم أن من اعتقد دينا سماويا وله كتاب منزل كصحف إبراهيم وشيث وزبور داود فهو من أهل الكتاب فتجوز مناكحتهم وأكل ذبائحهم (قوله: على المذهب) أي خلافا لما في المستصفى من تقييد الحل بأن لا يعتقدوا ذلك ويوافقه ما في مبسوط شيخ الإسلام يجب أن لا يأكلوا ذبائح أهل الكتاب إذا اعتقدوا أن المسيح إله، وأن عزيرا إله، ولا يتزوجوا نساءهم قيل وعليه الفتوى، ولكن بالنظر إلى الدليل ينبغي أنه يجوز الأكل والتزوج. اهـ.

 

قال في البحر: وحاصله أن المذهب الإطلاق لما ذكره شمس الأئمة في المبسوط من أن ذبيحة النصراني حلال مطلقا سواء قال بثالث ثلاثة أو لا لإطلاق الكتاب هنا والدليل ورجحه في فتح القدير بأن القائل بذلك طائفتان من اليهود والنصارى انقرضوا لا كلهم مع أن مطلق لفظ الشرك إذا ذكر في لسان الشرع لا ينصرف إلى أهل الكتاب، وإن صح لغة في طائفة أو طوائف لما عهد من إرادته به من عبد مع الله تعالى غيره ممن لا يدعي اتباع نبي وكتاب إلى آخر ما ذكره. اهـ‘‘.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200549

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں